الیکشن کمیشن سینیٹ انتخابات میں کرپشن روکے، چیف جسٹس

343

اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کو آج منگل کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سینیٹ الیکشن کے حوالے سے الیکشن اسکیم عدالت میں پیش کریں، شفاف، ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے۔معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ سینیٹ الیکشن میں کسی قسم کی کرپٹ پریکٹس نہیں ہونی چاہیے، یہ کام روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ سینیٹ الیکشن شفاف ہوں،ای سی پی ایک خودمختار ادارہ ہیں، کوئی قانون اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ اگر سینیٹ الیکشن خفیہ بھی ہو اور اس کے علاوہ بیلٹ کی شناخت بھی ہو سکے،کم از کم وہ بیلٹ الیکشن کمیشن کے لیے تو قابل شناخت ہونی چاہیے، الیکشن ڈے پر ووٹنگ خفیہ ہو لیکن بعد میں ووٹ کی شناخت ہونی چاہیے،اگر کہیں تضاد آتا ہے تو پارٹی سربراہ کو اسکا علم ہونا چاہیے،اس کے لیے کسی قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ الیکشن اسکیم تبدیل ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ سینیٹ میں ووٹ خریدوفروخت کا سدباب کرے، اب تو اسکی وڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں،کیا الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے یا جاگ رہا ہے؟، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ گزشتہ چالیس سال میں کرپٹ پریکٹس کی وجہ سے کتنے ارکان نااہل کیے؟ ایک بھی کرپٹ رکن کو سزا نہیں دی گئی،یہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے جس کو پورا کرنا لازمی ہے،کوئی قانون الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات ختم نہیں کر سکتا، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے،قانون موجود ہے اس کے باوجود ای سی پی نے خفیہ بیلٹ کے حوالے سے اپنے ہاتھ باندھ لیے ہیں کہ کچھ نہیں کر سکتے،کیا ای سی پی خفیہ بیلٹ کو دیکھ سکتے ہیں؟ اگر ووٹ کی خریدوفروخت ہوئی ہے تو اسکا تعین کیسے کریں گے جب تک بیلٹ نہ دیکھ لیں، اگر عام انتخابات میں انگوٹھے کی تصدیق ہو سکتی ہے تو یہی سینیٹ میں کیوں لاگو نہیں سکتا؟، چیف جسٹس نے ایک موقع پر وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ آپ اس بات کا تعین کیسے کرتے ہیں کہ آپکی آئین میں دی گئی ذمے داری کیسے پوری ہو رہی ہے۔جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ کرپٹ پریکٹس کے سدباب کا الیکشن ایکٹ کے تحت اسکا ایک میکانزم دیا گیا ہے،کمیشن خفیہ بیلٹ نہیں دیکھ سکتا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک موقع پر کہا کہ اگر عام انتخابات خفیہ ہوتے ہیں اور بعد میں بیلٹ دیکھا جا سکتا ہے تو یہی طریقہ سینیٹ الیکشن میں اپلائی کیوں نہیں ہوتا؟ بعد ازاں معاملے کی سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔