توانائی کی کمی کا مسئلہ جنگی بنیاد پر حل کرنا ہوگا‘ معین رضا

205

کراچی (منیر عقیل انصاری) پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے ایم ڈی اور سی ای او معین رضا خان نے کہا ہے کہ ملکی توانائی کی ضرورت میں اضافے اور فراہمی میں کمی کے مسئلے کا جنگی بنیادوں پر فوری حل وقت کی اہم ترین ضرورت اور اس حل کے لیے بہت کچھ کیا جانا چاہیے کیونکہ ملک میں اب تیل اور گیس کے بڑی مقدار میں ذخائر کی دریافت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور ہماری گیس کی ضروریات سپلائی سے بہت زیادہ ہوتی جارہی ہیں۔ اس وجہ سے ملک کو بڑی مقدار میں LNG درآمد کرنی پڑ رہی ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہے گا یہ ملک کے اندر پیدا ہونیوالی گیس سے دوگنی سے زیادہ قیمت میں پڑتی ہے اور وہ بھی زرمبادلہ کی صورت میں۔اس کی وجہ سے ملک کے گردشی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو بڑھ کر 2کھرب روپے سے زیادہ ہوچکاہے۔معین رضا نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خود پی پی ایل کو واجب الادا رقم 400 ارب روپے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ رقم SSGC, SNGPL وغیرہ کو ہمیں ادا کرنی ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو خدا نخواستہ بہت جلد ملک اس قابل نہیں رہے گا کہ LNG درآمد کرسکے اور ملکی کمپنیاں (OGDCL & PPL) فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس قابل نہیں رہیں گی کہ تیل اور گیس کے نئے ذخائر کا کام جاری رکھ سکیں خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ مزید بڑی دریافتوں کے لیے ہمیں مشکل علاقوں اور سمندر میں جانا پڑیگا جو بجائے خود ایک مشکل اور مہنگا اور خطرات سے بھرپور کام ہوگا۔ دونوں کمپنیوں (OGDCL & PPL) کو واجب الادا رقم گردشی قرضوں کی وجہ سے ایک کھرب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس امر نے دونوں کمپنیوں کی نئے ذخائر کی تلاش کے کاموں کو بہت بری طرح سے متاثر کیا ہے۔صورت حال کی سنگینی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ LNG کی درآمد کا جواز پیدا کرنے کے لیے 2013 سے 2018 تک ملک میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کوئی نیا بلاک یا علاقہ آفر ہی نہیں کیا گیا یعنی اس دوران کوئی نیا bidding round ہی نہیں ہوا۔ اس کا ملک کوtriple نقصان ہوا۔ ۱) مہنگی LNG کی درآمد، ۲) ملک کے اندر تیل اور گیس کی تلاش کی استعداد میں کمی، اور ۳) گردشی قرضوں میں گردن توڑ اضافہ۔ان تمام مسائل کا کوئی فوری اور جادوئی حل تو کوئی موجود نہیں ہے۔ لیکن چند اقدامات کرنے فوری طور پر ضروری ہیں۔۱) قومی کمپنیوں (PPL اور OGDCL)کو واجب الادا ایک کھرب ارب روپے کی رقم کو فوری طور پر ادا کرنے کے انتظامات تاکہ یہ کمپنیاں ملک کے اندر سے ہی یا international exploration کے ذریعہ توانائی کی مسلسل اور اضافی فراہمی کے لیے جامع حکمت عملی تیار اور اس پر جلد عمل درآمد کرسکیں اور توانائی کی فراہمی اور اس میں اضافہ کو یقینی بنا سکیں۔۲) کیونکہ ملکی صنعت گیس کے استعمال کی عادی ہوچکی ہے اس لیے LNG کی سستے داموں درآمد یقینی بنانے کے لیے اقدامات۔۳) ملکی توانائی کے mix میں گیس کا حصہ 47فی صد ہے جو کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے energy mix کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ اس کو reverse کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے اس ملک کو دنیا کے دوسرے بڑے کوئلے کے ذخائر عطا کئے ہیں۔ اس کوئلہ کو براہ راست بڑی مقدار میں بجلی پیدا کرنے کے لیے بڑے پلانٹ لگانا ملک کی اشد ضرورت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ اس ہی کوئلے کو براہ راست بہت ہی بڑی مقدار میں گیس میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تھر کے کوئلے کے ذخائر ملک کی تمام تر توانائی کی ضروریات سو سال سے زیادہ عرصہ کے لیے پوری کرسکتے ہیں۔ بس اس پر ایک جامع پالیسی کے ذریعہ تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔۴) ملک میں توانائی کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت تجربہ کار لوگ اور Talent موجود ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بجائے ان کی ٹانگیں کھینچنے اورمختلف غلط کیسز میں الجھائے رکھنے کے اور اس طرح ان کی توانائیاں سلب کرنے کے ان کو مخلصانہ اور آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ایک اہم پہلو قابل توجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال پوری ہونے پر ان کی استعداد اچانک ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ وقت تو وہ ہوتا ہے جب ایسے لوگوں کی wisdom اور delivery میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ایسے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل professionals کو مستقل بنیادوں پر استعمال کرنے کی بلکہ ان کی صلاحیتوں کو نچوڑنے کی ضرورت ہے۔یہی بات سمجھتے ہوئے اب امریکہ اور بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد یا تو ختم کردی گئی ہے یا اس میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔