آہ طلحہ اسلام: شہادت مبارک

404

بہتے لہو کی دھار … جمعیت
شجر سایہ دار … جمعیت
جیے ہزاروں سال … جمعیت

پونے دس بجے صبح ایک میسج نے دل کو غم زدہ کردیا۔ فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد امام صاحب نے دیگر بیماروں کے ساتھ طلحہ اسلام کے لیے بھی دعا فرمائی دل کی گہرائیوں سے آمین نکلی یہ دعا تو گزشتہ اکتوبر سے علاقے کی کئی مساجد میں ہر نماز کے بعد ہوہی رہی تھی۔ جب یہ نوجوان حافظ طلحہ اسلام یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے سفّاک ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنا جس کی وجہ سے شدید زخمی حالت میں عباسی اسپتال لے جایا گیا وہاں پتا چلا کہ ایک گولی جو ان کی ٹانگ میں لگی اور دوسی گولی ان کے پیٹ پر لگی جس سے ان کے ایک گردہ، آنتیں، پتّا مکمل اور جگر کافی متاثر ہوا ڈاکٹروں نے جان بچانے کی بھرپور کوشش کی اور آپریشن کامیاب ہوگیا کئی دن اسپتال میں رہنے کے بعد ڈاکٹروں نے ان کو گھر لے جانے کا مشورہ دیا۔ دل کو اطمینان ہوگیا۔ لیکن اللہ ربّ العالمین نے ان کے لیے کچھ اور فیصلہ کرلیا تھا۔
یہ نوجوان علاقے کی آنکھ کا تارا تھا نوعمری میں حفظ قرآن مکمل کرکے دنیاوی علوم حاصل کرنے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے مادر علمی جامعہ کراچی کی دہلیز تک جاپہنچا۔ پھر اس نے اپنی زندگی کا ایک مقصد چنا اور اس تحریک کا راہی بنا جس کا نصب العین ’’انسانوں کے سیرت اور کردار کی تعمیر اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر کرنا ہے‘‘ اسلامی جمعیت طلبہ۔۔۔ جس نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سیکولرزم اور کمیونزم کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑی جو اخلاق، سیرت و کردار کے ہتھیاروں سے لڑی گئی جنگ تھی۔ جس کے پاس ٹھوس دلائل تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں طلبہ کے قافلے اس میں شامل ہوئے اور اسی طلبہ تحریک نے اس معاشرے میں ایسے ہیرے بکھیر دیے جن کی چمک سے معاشرہ منّور ہوا۔ اس نوجوان نے اپنے زندگی کے مقصد کو پا لیا تھا۔ نوجوانوں کی تربیت کرنا، ان کو قرآن کے قریب کرنا، ان کو اللہ کے رسولؐ کی سیرت سے وابستہ کرنا یہی اس کا کام تھا اس کے لیے نوجوانوں کو جمع کرنا، ان کی تربیت کرنا ہی اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ دینی ماحول تو اس کو ماں باپ کی آغوش ہی سے مل گیا تھا کیونکہ اس کے والد نورالاسلام صاحب نے خود اسی راستے کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا تھا۔ وہ خود بھی عوامی حلقے میں خدمت اور دعوت کی پہچان ہیں۔ جب بوری بند لاشوں کا کلچر متعارف ہوا لوگوں کے لیے دعوت اور خدمت کا کام کرنا کٹھن بنا دیا گیا اور اسے لوگوں کو جو اس کام کو اپنی زندگی کا نصب العین بناچکے تھے ان کے لیے راہ چلنا بھی دوبھر تھا مگر اسلام صاحب نے تمام تر خطرات کو مول کے کر اس کام کوکیا۔ علاقے کے اندر پانی کی شدید قلت۔ جب مرد، عورت، بوڑھے جوان اور بچے سب ہی پانی کی تلاش میں منہ اندھیرے نکل کھڑے ہوتے اور میٹھے پانی توکیا نمکین پانی کا بھی حصول مشکل تھا اسی صورت حال میں نورالاسلام صاحب نے جماعت اسلامی کے فراہمی آب کے اس کام کی ذمّے داری لی اور اس کو بخوبی نبھایا اور علاقے میں سیکڑوں کی تعداد میں بورنگ کرواکر وہاں ہینڈ پمپ لگوا کر پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے علاوہ بھی جب کسی مظلوم نے پکارا اس کی مدد کو چل دیے۔
لیکن اس دل خراش واقعے کو کئی مہینہ سے زائد گزرنے کے باوجود آج تک قاتل دندناتے پھر رہے ہیں روزانہ کتنے طلحہ اسلام ان کا شکار ہورہے ہیں اب تو پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے راستوں میں خواتین سے بھی لوٹ مار ہورہی ہے اور ان کے بندے اور بالیاں اتروائی جارہی ہے اور ان کے پرس چھینے جارہے ہیں۔ بر سبیل تذکرہ یہ بھی بتاؤں کہ میری ملاقات حسن اور حسین اور ان کے دادا سے ہوئی جن کے جوان بیٹے کو دن دھاڑے گولی ماری گئی اور وہ اسی وقت خالق حقیقی سے جا ملے اور حسن اور حسین کو یتیم چھوڑکر اپنے بوڑھے باپ کے کندھوں پر قبرستان چلے گئے۔ کسی قاتل کا کوئی پتا نہیں چلا سیانے کہتے ہیں کہ جب قاتل کا کہیں پتا نہ چلے تو اس کو بادشاہ کے محل میں ڈھونڈنا چاہیے۔ جہاں قانون کے لمبے لمبے ہاتھ مجرموں کو چھتری فراہم کرنے کے کام آئیں وہاں ایسے مجرموں گروہ وجود میں آتے ہیں جو اپنی آمدن کا ایک بڑا حصّہ اپنی حفاظت پر مامور لمبے لمبے ہاتھوں میں پہنچاتے ہیں۔
کیا اس شہر کے گلیوں اور بازاروں کو ان مجرموں کے حوالے کردیا گیا ہے؟ کیا قانون نافذ کرنے والے اسی طرح بے حسی کی تصویر بنے رہیں گے؟ ایسا نہیں ہے کہ اس شہر میں قائم شراب کے اڈّوں اور مجرموں کی پناہ گاہوں کا علم نہیں۔ آج یہ شہر اور اس کے باسی خوف کی فضا کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کی ایک وجہ تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ غفلت ہے تو دوسری طرف عوام الناس کی بے حسی بھی ہے کیونکہ اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی واداتوں کے خلاف اور ان کی سرپرستی کرنے والے اداروں کے خلاف ایک احتجاج کیا گیا تو اس پر بھی لوگوں کی عدم دلچسپی یہ ظاہر کررہی تھی کہ شاید وہ اپنے لٹنے اور ظلم کا شکار ہونے کا انتظار کررہے ہوں۔ آگ اگر پڑوسی کے گھر میں لگ جائے اور اس کو بجھانے کی کوشش نہ کی جائے تو وہ آگ ہمارے گھر تک پہنچ کررہتی ہے اس لگی ہوئی آگ کو پڑوسی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس آگ کو اپنا سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ نبی رحمت ؐ کا فرمان ہے کہ جو میری امّت کے معاملات سے لا تعلق رہا وہ ہم میں سے نہیں۔ معاشرے کو بد امنی سے بچانے کوشش کرنا اور اس کے لیے اپنے دستوری اور آئینی حق کو استعمال کرنا ہماری ذمّے داریوں میں سے ہے۔ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غفلت کے اس روئیے کو ترک کریں اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کا جو حلف آپ نے پڑھا ہے اس عہد کو وفا کریں اور طلحہ اسلام کے قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سز ا دیں تاکہ کل کوئی اور طلحہ اسلام کے والدین اپنے لخت جگر کی جدائی میں آنسو نہ بہا رہے ہوں اور معاشرے کے حسن و حسین یتیم نہ ہوں۔
آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نَورْستہ اس گھر کی نگہبانی کرے