کراچی حیدرآباد، سکھر کی ملازمتوں پر ڈاکا

578

سندھ اور وفاق یا پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے اختلافات کے نتیجے میں جہاں ملک کا نظام تلپٹ ہو رہا ہے وہیں دونوں ایک دوسرے کی غلط کاریوں کا پردہ بھی چاک کر رہے ہیں جن قوتوں اور گروہوں کو وفاق کی پی ٹی آئی حکومت سے اختلاف ہے وہ پی ڈی ایم کی جانب سے اس کی خرابیاں اجاگر کرنے پر خوش ہوتی ہیں لیکن ایک کام ایسا ہوا ہے کہ اس وقت سندھ اور خصوصاً سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے پی ٹی آئی مخالف بھی اس سے خوش ہوئے ہیں اور امید بندھ چلی ہے کہ اس سے ان کے حقوق پر ڈاکا مارنے کی رفتار کو بریک لگے گا یا کم ازکم اس میں رکاوٹ آئے گی۔ وفاق نے نیب سے سندھ میں جعلی ڈومیسائل پر ملازمتوں کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ جسارت کی خصوصی خبر کے مطابق کراچی سمیت صوبہ سندھ کے شہری ڈویژن حیدرآباد اور سکھر میں وفاق کے طے شدہ فیصلے کے برخلاف ہزاروں افراد کو جعلی ڈومیسائل پر ملازمتیں دی گئی ہیں۔ گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے احتساب بیورو کو اس حوالے سے خط لکھا تھا کہ اس حوالے سے کارروائی کی جائے۔

اب ایک سال بعد نیب سے ایک سالہ کارکردگی رپورٹ طلب کی گئی ہے اس بارے میں معلوم ہوا ہے کہ شہزاد اکبر نے لکھا تھا کہ شہری سندھ میں 36 ہزار ایسے افراد کو ملازمتیں فراہم کی گئیں جو ڈومیسائل کے اعتبار سے ان علاقوں میں ملازمت کے اہل ہی نہیں تھے۔ شہزاد اکبر کے انکشاف کے مطابق کراچی میں 30 ہزار 561، حیدرآباد میں پانچ ہزار 550 ایسے افراد سرکاری ملازم رکھے گئے جن کے پاس متعلقہ شہروں کا اصل ڈومیسائل ہی نہیں تھا جبکہ ان کی پیدائش بھی ان شہروں کے بجائے دیہی سندھ کی ہے۔ خود سندھ حکومت کے 1974ء کے قانون کے تحت بھی سرکاری ملازمتوں میں 40 فیصد کوٹہ سندھ کے شہری ڈویژنوں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے لیے مخصوص ہے اور باقی 60 فیصد پورے سندھ کے دیہی علاقوں کے لیے۔ لیکن 2006ء سے یہ غیر قانونی بھرتیاں کی جارہی تھیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے اس بے ضابطگی اور قانون کی صریح خلاف ورزی پر کوئی آواز اٹھائی جائے تو الٹا تعصب کا الزام عاید کر دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت سندھ یہ بھرتیاں تعصب کی بنیاد پر نہیں کر رہی تو اور کس بنیاد پر کی جا رہی ہیں اور معاملہ صرف دیہی سندھ کے لوگوں کو ملازمتیں دینے کا نہیں ہے بلکہ شہری علاقوں کا حق مارنے کا بھی ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کراچی نے آواز اٹھائی ہے۔ کراچی کی آبادی کے تناسب کو کم کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس طرح ملازمتوں میں بھی حق نہ دیا جا سکے۔ اس معاملے میں زیادتی دوہری ہے۔ ایک تو شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا اس پر طرہ یہ کہ جن لوگوں کو بھرتی کیا گیا ان میں صلاحیت نام کو نہیں ہے۔ بیشتر لوگ درست طریقے سے دفتری مراسلت پڑھنے کے بھی قابل نہیں۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ہر جگہ یہی کچھ دیکھنے میں آ رہاہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں، کمپائونڈروں اور حساس اداروں پولیس وغیرہ میں بھی ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے اور بات محض بھرتی تک محدود نہیں رہتی۔ جب پولیس، محکمۂ تعلیم اور طب کے شعبوں میں لوگ کروڑوں روپے تک رشوت دے کر آئیں گے تو وہ مہینوں میں کروڑوں واپس حاصل کرنا چاہیں گے اس کے نتیجے میں کرپشن بھی بڑھے گی اور زیادتی بھی۔ اس دوہری زیادتی کا ایک اور نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں کا حق مارا گیا ان ہی سے رشوت لے کر ان کے کام کیے جاتے ہیں۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو جب سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنایا گیا ہے اس کے بعد سے پورے سندھ خصوصاً کراچی میں تعمیراتی صنعت پر عذاب آیا ہوا ہے۔ پورے شہر میں غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ جعلی ڈومیسائل والے ان کی اجازت دیتے ہیں اور چند برس بعد ان کو توڑنے کا نوٹس جاری ہوتا ہے۔ بناتے وقت بھی رشوت اور توڑنے کے نوٹس کے بعد پھر رشوت لی جاتی ہے۔ اس طرح رجسٹرار آفس تو سندھ کے کسی چوپال یا اوطاق کا منظر پیش کرتا ہے وہاں تو رجسٹرار، اسسٹنٹ اور ڈپٹی کی درازیں کھلی ہوتی ہیں ان میں رقم نہیں ڈالی تو کام نہیں ہوگا۔ یہ بات یہ افسران کھلے عام کہتے ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ دو کروڑ میں پوسٹ خریدی ہے پتا نہیں کب ٹرانسفر ہو جائے۔ بابا پیسہ پورا کرنا ہے۔ زیادہ بات نہ کرو پھر یہی لوگ غیر قانونی تعمیرات کی رجسٹری کرتے ہیں لیکن ان کی مدد کراچی و حیدرآباد کے وہ ٹھیکیدار کرتے ہیں جنہوں نے یہاں 30 برس حکومت کی ہے۔ یہی لوگ ان نا اہلوں کو وہ قانونی سقم بتاتے ہیں جن کی بنیاد پر بعد میں ان اجازت ناموں کو منسوخ کیا جا سکے انہیں بھی کچھ ٹکڑے مل جاتے ہیں۔ لیکن اس زیادتی کا ازالہ کیونکر ہوگا۔ اگر نیب نے بالفرض کوئی کیس بنا بھی لیا تو یہاں بھی نوٹ چل جائیں گے اور مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ حکومت سندھ کا تسلسل کے ساتھ یہ غیر قانونی کام سامنے آگیا ہے اور اس بات کا ثبوت بھی مل گیا ہے جو عوام روزانہ سرکاری دفاتر میں دیکھتے بھی رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو دیہی اور شہری سندھ کے درمیان نفرتیں بڑھیں گی اور اس کی ذمے داری صرف سندھ حکومت پر نہیں ہوگی وہ اس خرابی کی بڑی ذمے دار ضرور ہے لیکن وفاق کو بھی 2006ء کے بعد سے اب خیال آیا کہ یہ زیادتی ہو رہی ہے۔ دراصل 2006ء میں بھی سب کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن وفاق سودے بازی کرکے خاموش ہو جاتا تھا۔ تو اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وفاق یا نیب کوئی پلی بارگین نہیں کر لیں گے اور سندھ کے شہری عوام منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔