کالے کوٹ نہیں کالے کرتوت کی حکمرانی

912

گزشتہ ہفتے تمام ٹی وی چینلوں پر یہ پٹی دکھائی جاتی رہی کہ اسلام آباد کی عدالتوں میں کالے کوٹ والوں کی حکمرانی، وکلا گردی، وکیلوں کی بدمعاشی وغیرہ۔ معاملہ وکلا کے کچھ دفاتر گرانے سے شروع ہوا اور چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوے اور گالم گلوچ تک بات پہنچ گئی۔ اس واقعے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتیں بند کردی گئیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ سے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ جسٹس گلزار نے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ وکلا کے چیمبر سی ڈی اے نے توڑے اور نعرے بازی چیف جسٹس کے خلاف لگائے گئے اس طرح جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جب وکلا ججوں کی عزت نہیں کریں گے تو سائلین کو کون سنے گا۔ ان کا سوال بجا ہے لیکن یہ وکلا بھی تو کہتے ہیں کہ ہماری عزت نہیں کی جاتی۔ اس ہنگامے کے نتیجے میں دنیا بھر میں یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں وکلا اور ججوں میں کوئی اختلاف ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ وکلا اور ججوں کی عزت ہونی چاہیے لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ نہ ججوں کی عزت کا مسئلہ ہے نہ وکلا کی، اصل عزت تو اللہ کی ہے اور اللہ کے نام پر بننے والے ملک کے قانون کی۔ کیا وجہ ہے کہ آئین اور قانون سے زیادہ اہمیت ’’میری‘‘ ہے اگر کوئی جج قانون پامال کرے تو اس کو بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ایک عام آدمی کو دی جاتی ہے یا اب وکیلوں کے لیے تجویز کی جارہی ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ ہر ادارہ ایک دوسرے سے آگے نکلا جارہا ہے۔ خدارا سب اپنے اپنے قد تھوڑے چھوٹے کریں اور آئین اور قانون کو بالا کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملکی نظام ہی بیٹھ جائے گا۔ پھر تو لاٹھی اور بھینس والا قانون ہوگا۔
اگلے دن عدالتیں کھل گئیں لیکن مزید چیمبرز گرانے کے احکامات جاری ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ چیمبرز ججوں کے ہوتے تو کیا اس طرح گرائے جاتے۔ اگر ججوں کے چیمبرز بھی گرادیے جاتے تو پھر وکلا کے چیمبرز بھی گرادیے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کراچی اسلام آباد لاہور وغیرہ میں عدلیہ، فوجیوں اور بیورو کریٹس کے لیے جو کٹنگ کی جاتی ہے اسے چائنا کٹنگ کہا جائے یا امریکی کٹنگ لیکن دنیا دیکھتی ہے کہ ان طاقتور اداروں کے لیے سارے قوانین بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ بنی گالا میں ہوا۔ قانون ہی بدل گیا۔ وزیراعظم عمران خان دو روز قبل کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم اور وزرا کی چوری سے ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ بنی گالا کے بعد ویڈیو اسکینڈل میں وزیر کے ملوث ہونے کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا۔ تو پھر ملک کون تباہ کررہا ہے۔ یہاں بھی وہی اصول چلنا چاہیے۔ وزیراعظم اور وزرا کی کرپشن کے لیے اب کون سا ثبوت چاہیے۔
بات تو وکیلوں کی دہشت گردی سے چلی تھی جس پر مک مکا ہوچکا، اب عدل کا ایوان بھی محفوظ ہے اور وکلا کے چیمبر بھی۔ لیکن ملک کی تباہی کے مسئلے پر وزیراعظم نے جس انداز میں روشنی ڈالی ہے وہ بہت خوب ہے۔ ان کے بیان کا مطلب صرف یہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور زرداری کے وزرا کی کرپشن سے ملک تباہ ہوتا ہے۔ ان کا اشارہ اپنے وزرا کی طرف ہرگز نہیں تھا۔ اس کا اندازہ ایسے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے سابق اوپننگ بیٹسمین فواد چودھری نے بڑی سادگی سے سوال اٹھایا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ رشوت دے کر سینیٹرز کون لوگ بنتے تھے۔ انہوں نے ان لوگوں کی قیمت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ دو دو ٹکے کے لوگ دوسروں پر الزامات لگا کر توجہ خود سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ فواد صاحب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیتے کہ فی ٹکہ کتنے کروڑ ہوتے ہیں۔ زیر زمین دنیا جس کو انڈر ورلڈ کہا جاتا ہے کہیں مافیا کہا جاتا ہے جس کے پاس پیسے بہت ہوتے ہیں وہی لاکھ کو پیٹی اور کروڑ کو کھوکھا کہتے ہیں۔ فواد چودھری بتائیں دو ٹکے کتنے کھوکھے کے ہوتے ہیں اور سادگی دیکھیں پوچھ کون رہا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ رشوت دے کر کون کون سینیٹر بنا ہے۔ ارے رشوت دے کر منسٹر بننے والوں کو بھی لوگ جانتے ہیں اور سینیٹرز بننے والوں کو بھی… لیکن فرق کیا پڑجائے گا۔ پٹرول مافیا کا پتا چل گیا تو کیا ہوا، الٹا انعام دیے گئے، چینی مافیا کو اور قریب کرلیا گیا، چینی 60 سے 100 روپے کردی گئی، گندم اور آٹا مافیا بھی مزے میں ہے۔ یہ بھی تو رشوت دے کر مزے میں رہتے ہیں۔
ہمارے خیال میں میڈیا میں تو یہ ہمت نہیں کہ ایسی خبر جاری کرسکے کہ کالے کوٹ والوں کی نہیں پورے ملک پر کالے کرتوت والوں کی حکمرانی ہے۔ یہ کالے کرتوت والے کبھی نوٹ لیے ہوئے ہوتے ہیں کبھی جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی بوٹ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دراصل ملک پر حکمرانی کالے کوٹ کی نہیں کالے کرتوت والوں کی ہے۔ اس حکمرانی کو ختم کرنا آسان نہیں۔ ایک دوسرے کو ضرور بُرا کہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اصل مافیا یہ سب مل کر بنے ہوئے ہیں یہی انڈر ورلڈ ہیں یہی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ یہ ہر ادارے میں بیٹھے ہیں۔