قلب

583

=مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
جسم اعضاء کا مجموعہ ہے یہ اعضاء اپنے کام کے اعتبار سے اہم ہوتے ہیں جو اپنا اپنا کام کرتے ہیں اسی طرح جسم کے اندر قلب کا مقام نہایت اہم ہے اس کا شمار ان اعضاء میں ہوتا ہے جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ یہ وہ عضو ہے جو جسم میں خون کی روانی کو قائم رکھتا ہے اور اس کی مسلسل حرکت زندگی کی نشانی ہے۔ انسان دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے اوّل جسم اور دوم روح۔ قلب کے معنی میں جو سب سے اہم معنی ہے وہ ہے مرکز اور مسلسل حرکت اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی جسم میں قلب اس کا مرکز ہے اور اس کی حرکت بھی انسان کی پیدائش سے موت تک ہے۔ جس طرح انسان کے جسم کا مرکز یہ قلب ہے اسی طرح انسان کی روح کا بھی مرکز یہی قلب ہے جو انسان کے سینے میں دھڑک رہا ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ انسان کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب ہے غور سے سنوں وہ دل ہے وہ دل ہے۔ اس حدیث نے جسم کے اندر قلب کی اہمیت کو واضح کردیا ہے۔ اس کے معنوی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو یہ مرکز انسان کے جسم کے اندر گوشت کے لوتھڑ ے کی شکل میں موجود ہوتا ہے گویا ایمان کا بیج اسی زمین پر بویا جاتا ہے اور تمام اچھائی اور برائی کی آماج گاہ ہوتا ہے ہر طرح کی سوچ اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح انسانی معاشرے کا بھی ایک قلب ہوتا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اس کی سوچ اس کی عمل سے متاثر ہوتا ہے اس کا حکم سارے معاشرے کے افراد پر چلتا ہے اس کی اچھائیوں سے معاشرے کا ہر فرد خوشبوں اور راحت محسوس کرتا ہے اور اس کی برائیوں سے ہر فرد تعفّن تکلیف محسوس کرتا ہے اسی سے معاشرے اور قوموں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے یہ قیادت ہوتی ہے جو پورے معاشرے کو اپنے گرد جمع کرتی ہے اور ایک خاص سمت میں لے کر چلتی ہے یہی قیادت دراصل قوم کے ایک
ایک فرد اصلاح و تربیت کی ذمے دار ہوتی ہے اور اسی کے پاس سمت ہوتی ہے کہ قوم کو کس سمت میں لے کر چلنا ہے۔ جہاں دل کے اندر سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے وہیں سے فیصلے بھی آتے ہیں کہ کس کو اپنے مستقبل کا ذمے دار بنایا جائے گویا قلب کس کے حوالے کیا جائے اسی کو اگر پاکستان کی قیادت پر قیاس کرلیا جائے کہ قلب کس کے حوالے کردیا گیا ہے تو صورت حال واضح ہوتی ہے کہ آزادی کے حصول کے وقت قیادت کس طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی ان کے سامنے سمت متعین اور واضح تھی یعنی ایسا خطّہ زمین حاصل کرنا جس میں مسلمان اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں اس سمت میں چلنے کے لیے مسلمانان ہند قائد اعظم کے گرد جمع تھے اور علامہ اقبال سے فکری رہنمائی حاصل کررہے تھے۔ قیادت نیک نیتی کے ساتھ اپنا فرض پورا کرتے ہوئے مسلمانان ہند کو منزل تک لے کر آگئی اور ایک ریاست قائم ہوگئی۔ یقینا آزادی کا حصول ایک سنگ میل تھا لیکن اسلامی حکومت کا قیام منزل تھی۔ اللہ کے ساتھ جو عہد باندھا تھا اس میں فتور آگیا اور آزادی کے حصول ہی کو منزل سمجھ بیٹھے اور اسلامی حکومت کا قیام بھول بیٹھے قلب کے اس فتور نے ہمیں منزل سے دور کردیا بار بار مواقع ملنے کے باوجود ہم اپنی منزل کی جانب جانے کے بجائے دور ہوتے گئے ہم نے اپنی ان قیادتوں کا انتخاب کیا جو ہماری منزل کے دشمن تھے وہ تو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے آپ ؐ نے بالکل سچ فرمایا کہ جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب ہے۔ غور سے سنو وہ دل ہے وہ دل ہے۔ دل کی خرابی کے ذمے دار بھی ہم خود ہیں اب جب قلب خراب ہوگیا ہے تو سارا جسم خراب ہوگیا ہے پورے معاشرتی جسم میں فسق و فجور خون کی گردش کی طرح دوڑ رہا ہے اور ان خرابیوں کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے اس خرابی قلب کی وجہ اجتماعی غفلت ہے جس نے پورے نظام کو تو خراب کیا ہی ہے بلکہ اب تو ہماری آزادی بھی خطرے میں ہے کیونکہ جب جسم ہی لاغر ہوجائے تو وہ بھلا کیا دشمن کا مقابلہ کرسکتاہے قلب کو درست کیے بغیر ہم جسم کے اندر موجود خرابی کو دور نہیں کرسکتے ملک کا سارا نظام مفلوج ہوچکا ہے اس کے لیے قیاد ت یعنی قلب کی اصلاح ضروری ہے۔