ریاستی ادارے خود کو آئین کاپابند نہیں سمجھتے‘ جمہوریت کوہمیشہ کنٹرول کیے رکھا

336

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) پاکستان کی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے بڑے اسباب میں ریاستی اداروں کا آئین کی پابندی سے خود کو بالاتر سمجھنا، غیر منظم سیاسی جماعتوں کی جعلی سیاسی قیادت اور عالمی طاقتوںکی ریشہ دوانیاں شامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مختلف سیاسی رہنمائوں اور اہل علم و دانش نے روزنامہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ’’جسارت‘‘ کے سوال کے جواب میں سینئر سیاست دان، سابق رکن قومی اسمبلی، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت، بالادستی اور فیصلہ کن کردار کی دو اہم وجوہات ہیں، اول یہ کہ ریاستی ادارے خود کو آئین کا پابند نہیں سمجھتے ان کے نزدیک آئین یہی ہے کہ ملک کے سارے انتظام و انصرام کو چلانا، ان کی ذمے داری ہے چنانچہ ملک کی آزادی کے بعد وہ زیادہ عرصہ براہ راست خود اقتدار میں رہے یا اگر جمہوریت کو موقع دیا بھی تو انجینئرڈ طریقے سے کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا۔ اس ضمن میں دوسری اہم وجہ سیاسی قیادت کی ناکامی ہے جو خود بھی جمہوری رویہ رکھتی ہے نہ اپنی جماعتوں میں جمہوریت کو موقع دینے پر تیار ہے، سیاسی قائدین آئین کی ہدایت کے مطابق عمل کرنے اور نظام حکومت چلانے پر تیار نہیں ہوتے، پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بجائے آرڈیننسوں کے ذریعے کام چلاتے ہیں، اقتدار کے رسیا، مفاد پرست اور بدعنوان سیاسی رہنمائوں کا ہدف ہر قیمت پر اقتدار کا حصول ہوتا ہے جس کی خاطر وہ جمہوریت کا نام لے کر ہر طرح کی سودے بازی کرتے ہیں۔ روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کے گروپ ایڈیٹر ممتاز دانشور عطاء الرحمن نے جسارت کے سوال پر بتایا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح اور ان کے دست راست لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد ہی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاست پر چھا گئی تھی، پہلے خاکی کپڑوں والوں نے سول بیورو کریسی کے غلبہ کی راہ ہموار کی جس کے بعد اس نے خاکی کے غلبہ کے دروازے کھولے ، قیام پاکستان کے فوری بعد سوویت یونین اور امریکا کے مابین سرد جنگ شروع ہو گئی تھی جو پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کے باعث اسے اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کے لیے کوشاں ہو گئے چنانچہ پہلے فوج میں روس کے حامی افسروں، شاعروں اور صحافیوں کے ذریعے فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی گئی جو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث ناکام رہی پھر سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کے تعاون سے 8 اکتوبر 1958ء کو مارشل لا نافذ کر دیا جس کے صرف 20 دن بعد جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو بھی نکال دیا اور خود صدارت پر بھی قبضہ کر لیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ امریکا نے مارشل لا کی تائید میں باقاعدہ خط لکھا کیونکہ امریکی حکمران یہ سمجھتے تھے کہ فوجی حکمران ہی ان کے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانے اور خفیہ اڈوں کے قیام کے مقاصد پورے کر سکتے ہیں،یوں فوجی غلبے کو امریکی سرپرستی بھی حاصل ہو گئی تاہم اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا تھا وہ کوئی منظم جماعت نہ تھی قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد یہ مزید انتشار سے دو چار ہو گئی تاہم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر باشعور سیاسی قائدین نے فوجی اقتدار کی بھر پور مزاحمت کی اور 1964ء میں صدارتی انتخاب کے موقع پر بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں اہل سیاست کو متحد کر کے ایوب خان کو زبردست چیلنج دیا مگر مشرقی پاکستان اور کراچی سے محترمہ فاطمہ جناح کو واضح اکثریت ملنے کے باوجود ان کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ پھر 1968ء میں ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی تو جی ایچ کیو نے دوبارہ مارشل لا لگا دیا یوں ملک میں فوج کا اقتدار مزید مضبوط ہو گیا اسی دور میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا مگر اس کے باوجود سیاسی جماعتیں منظم نہ ہو سکیں۔ صرف سید مودودیؒ نے ایوب خان اور بعد کے ادوار میں ملک کو آئین دلانے اور آئین کو اسلامی و جمہوری بنانے کے لیے زبردست جدوجہد کی، انہوں نے اس مقصد کے لیے ذہنی و فکری غذا مہیا کی انہیں اگرچہ ایوانوں میں وہ اثر و رسوخ حاصل نہیں تھا مگر انہوں نے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل کا ایسا انبار لگایا کہ کوئی ان کے قابل ٹھہر نہ سکا۔ چنانچہ 1973ء میں ملک کو جو متفقہ آئین ملا، سید مودودیؒ کی کوششوں سے وہ بڑی حد تک اسلامی اور جمہوری تھا اور فوج کئی بار کوشش کے باوجود آئین میں اپنا کوئی کردار متعین نہیں کرا سکی تاہم سیاسی جماعتوں میں تنظیم کے فقدان نے ملکی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کو مضبوط کیا میں نے ذاتی طور پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جماعت کو منظم کرنے کی جانب توجہ دلائی مگر وعدہ کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری جانب جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے بعد آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلنے اور سیاسی اور صحافتی محاذ پر سخت تنقید کے باعث فوج براہ راست اقتدار سنبھالنے سے گریزاں ہے البتہ پس منظر میں رہ کر اپنی پالیسیاں چلائی جا رہی ہیں۔ معروف صحافی، کالم نویس اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کے جلدی بعد ہی ملک پر سیاستدانوں کے بجائے اس حلقے کا کنٹرول ہو گیا جس کے اعلیٰ بیورو کریسی اور دفاعی ادارے سے تعلقات تھے، اس کے نتیجے میں امریکا سے دفاعی معاہدہ بھی کر لیا گیا جس کے بعد یہاں طویل عرصہ تک اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ رہا جس نے جس طرح چاہا معاملات کو چلایا، یہ چونکہ عالمی طاقتوں کے بھی مفاد میں تھا چنانچہ ان کی سرپرستی سے پاکستان ایک فلاحی کے بجائے دفاعی اور سیکورٹی ریاست بن گیا ۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر معروف سیاسی تجزیہ نگار سلمان غنی نے پاکستان کی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کا سبب جعلی سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں کو قرار دیا ان کی رائے میں اگر ہماری سیاسی جماعتوں کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوتیں اور وہ واقعی جمہوری جماعتیں ہوتیں، خود ان کے اندر جمہوریت مضبوط و مستحکم ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ نہ ہو پاتا۔ جب اپنے اندر سے کمزور ہوں تو دوسروں کا ہوا اور خوف آپ پر مسلط ہو جاتا ہے اور وہ جس طرح چاہتے ہیں آپ کو ہانک لے جاتے ہیں۔