ایرانی انقلاب کی بیالیسویں سالگرہ

521

اس سال، ایران کے عوام، انقلاب اسلامی کی فتح کی بیالیسویں سالگرہ کو ایک ایسی صورتحال میں منا رہے ہیں، جس میں اس عوامی انقلاب کے بہت سے دشمن خاص کر ٹرمپ کی حکومت اور صہیونی رجیم کا خیال تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دبائو کی مہم اور تاریخ کی سخت ترین اور انتہائی جابرانہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی قوم کو اپنے گھٹنوں کے بل لاسکیں گے اور انقلاب اسلامی کی شکست کا جشن منائیں گے، لیکن وہ جابر حکومت گئی اور اسلامی انقلاب ایران اب بھی سربلند اور قائم و دائم ہے۔
امریکا کی جانب سے یکطرفہ اور غیرقانونی پابندیوں کے نفاذ کو لگ بھگ تین برس بیت چکے ہیں لیکن ایران کی مسلمان قوم پابندیوں کے باعث پیدا ہونے والی تمام پریشانیوں کے باوجود نہ صرف ہمت نہیں ہاری بلکہ پہلے کی بہ نسبت زیادہ سے زیادہ استقامت اور امید کے ساتھ ایک روشن مستقبل کی منتظر ہے اور یقین رکھتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرکے انتہائی مشکل حالات سے بھی نکل سکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور عالمی طاقتوں کے جھوٹے وعدوں پر بھروسا نہ کرنا، ایرانی قوم کے لیے اسلامی انقلاب کا اہم ترین کارنامہ اور تمام مسلم اقوام کے لیے ایک مثال تجربہ ہے ۔ لہٰذا، اسلامی جمہوریہ ایران کا خیال ہے کہ عالم اسلام کے تمام مسائل اور کمزوریوںکو مسلم ممالک کی صلاحیتوں اور اسلامی ممالک کے مابین تعمیری تعاون کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے اور غیر علاقائی ممالک کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جہاں بھی ان ممالک نے مداخلت کی ہے وہاں مسلم امہ میں تفرقہ بڑھنے، اسلامی ممالک کے وسائل کے لوٹنے، دہشت گردی اور عدم تحفظ کے پھیلائو کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ لہٰذا، عالمی طاقتوں پر انحصار کے خاتمے کی کوشش اور ان کی خواہشات کے سامنے ڈٹ جانا، اسلامی انقلاب کا ایک اور کارنامہ ہے۔ بلاشبہ، ان ممالک پر انحصار سے مکمل طور پر بچنے کی قیمت زیادہ اور وقت طلب ہے، لیکن تاریخی تجربے سے پتا چلتا ہے کہ ان طاقتوں پر انحصار اور ان کی خواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی نہ صرف بھاری قیمت ہوتی ہے بلکہ ان کی طمع میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے مسلم ممالک میں سے ایک ملک کی توہین کرنا اور اسے ’’ڈیری گائے‘‘ سے تشبیہ دینا، ان طاقتوں پر انحصار کا انجام ہے۔ بلاشبہ، ایرانی قوم کا خدا کی راہ میں قربانی اور شہادت جیسی اسلامی اقدار پر دلی یقین ہی دنیا کے سپرپاورز کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی قیمت اور دشواری کو جھیلنے کی بنیادی وجہ ہے۔ اسلامی انقلاب، اسلامی عقائد کو فروغ دے کر ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام میں مزاحمت کے جذبے کو پھیلانے میں کامیاب رہا ہے، اور آج ۴۲برس بعد، بہت ساری مشکلات برداشت کرنے کے باوجود، مزاحمت کا جذبہ نہ صرف کمزور نہیں ہوا بلکہ مزید مضبوط ہوچکا ہے۔ اسی لیے، اسلامی انقلاب کے دشمن واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایران پر ڈبائو ڈالنے کا اصل مقصد، اسلامی ممالک میں موجود مزاحمت کے محور کو توڑنا ہے۔ اسلامی مزاحمتی محور کے مرکزی کمانڈر اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف برسرپیکار جنرل سلیمانی نیز ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر فخری زادہ پر حملوں کو عالمی استعمار کی جانب سے مزاحمت کے محور کو توڑنے اور امریکی و صہیونی جارحیت کے خلاف ایران کے عزم کو توڑنے کی کوشش کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران پر اس طرح کے سیاسی، معاشی اور سلامتی کے دبائو نے یہ ظاہر کیا ہے کہ دنیا کے سپرپاور، ایران کے اسلامی انقلاب کو اپنے گھٹنوں تک لانے کے لیے کسی بھی طرح کے غیرقانونی اور غیر انسانی ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتے۔ یہ حقیقت، ان سپرپاورز کی حقیقی نوعیت کو ظاہر کرنے کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کا بھی اظہار کرتی ہے۔ نینو ٹیکنالوجی، اسٹیم سیلز (خلیے)، لیزر، خلائی ٹیکنالوجی، میڈیکل ٹیکنالوجی اور اس طرح کے بہت سے دوسرے شعبوں میں ایران کی سرفہرست پوزیشن جو سب اسلامی انقلاب کے بعد واقع ہوئی ہیں درحقیقت ایران کی طاقت کے نمونے ہیں۔
جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداروں نے کئی بار عوامی سطح پر اور نجی ملاقاتوں میں بتایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کا مطلب ہرگز دوسرے ممالک پر حملہ کرنے یا خطے پر غلبہ حاصل کرنا نہیں ہے اور نہ ہوگا۔ درحقیقت ایران کی طاقت خاص کر عسکری طاقت جارحیت کے لیے نہیں ہے بلکہ کسی بھی جارحیت کے سامنے مقابلہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ایران کی اپنی تاریخ میں خاص کر ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد دوسرے ممالک کے خلاف جارحیت نہ کرنا، میرے ملک کے عوام اور عہدیداروں کی امن پسندی کی ایک روشن علامت ہے۔