اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ سرد جنگ کے حالات اب تبدیل ہوچکے ہیں اور دنیا میں اب سفارتی تعلقات کے لیے نئی ترجیحات بن رہی ہیں۔ اس خطے میں اگرچہ ابھی تک بھارت امریکی گڈ بک میں ہے لیکن اس کے لیے اب یہاں ماضی کی طرح کی اہمیت نہیں رہی ہے۔ بھارت میں جس طرح انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اس سے خطہ کے ممالک اپنے لیے خطرات محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ سے کہ اس وقت خطے میں بھارت کے کسی بھی ملک کے ساتھ ماضی جیسے تعلقات نہیں رہے۔ اسے صرف اس وقت افغانستان میں کچھ اسپیس ملی ہوئی ہے لیکن یہا سپیس بھی زیادہ دیرتک نہیں چل سکتی۔ در اصل اس کا اپنا جارحانہ اور انتہا پسندی کا رویہ ہے جو اسے اس خطہ میں تنہا کر رہا ہے۔مشاہد حسین سید نے یہ بات جسارت کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ کہ خطے کے تمام اہم ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات خراب کیوں ہیں؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک منصوبہ بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔ کیونکہ بھارت اپنے بعض مفادات کی وجہ سے کھڑا ہے لیکن اس خطے کے دیگر ممالک اسی منصوبے پر اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں اور اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ معاملہ بھارت اور خطہ کے ممالک کے مابین کشیدی اور خراب تعلقات کا باعث ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ض) کے صدر سابق وفاقی وزیر محمد اعجاز الحق نے بتایا کہ بھارت نے ماضی میں عالمی حالات کے باعث بہت فوائد سمیٹے ہیں اور امریکا کے لیے یہ ہمیشہ ایک اچھا پارٹنر رہا ہے اور یہ اب بھی ہے لیکن اس خطے میں آنے والی اقتصادی تبدیلیوں نے یہاں بے شمار حالات تبدیل کردیے ہیں۔ اب یہاں ماضی جیسی صورت حال نہیں رہی کہ یہاں کے چھوٹے ممالک بھارت کی جانب دیکھنے پر مجبور رہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کیونکہ سی پیک منصوبے نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ چین نے اپنے اقتصادی منصوبے میں پاکستان کو شامل کیا ہے تو اسی خطے کے دیگر ممالک نیپال اور بنگلہ دیش کو بھی اس میں شامل کر رہا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ کے اس سوال کو اس خطے اور عالمی حالت کے تناظر میں دیکھا جائے۔ سی پیک منصوبے کے بعد انتہائی غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے ڈائریکٹر میڈیا میاں ابرار نے بتایا کہ چین کے سی پیک کے مقابلے میں امریکا نے بھی اس خطے کے لیے ایک روڈ میپ کا اعلان کیا تھا اور ہیلری کلنٹن نے اس کا اعلان کیا تھا، امریکی اعلان کے بعد چین نے اپنے سی پیک کے لیے نہایت متحرک اور تیز ترین اقدامات اٹھائے اور اس خطے میں افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، ایران اوربرما کے ساتھ اپنے تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی کے لیے پیش قدمی کی، جس کے باعث امریکا کا چین کو بھارت کی مدد سے گھیرنے کا منصوبہ ناکام ہوا۔ امریکا چاہتا تھا کہ بھارت، ملائیشیا، برما، مکائو، ویت نام کے ساتھ مل کر ایک بلاک بنائے اور روس کو چین سے دور کردے، مگر اس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی بھارت کو سب جگہ پسپائی ہوئی ہے اور اب اس کا انحصار امریکا اور مغرب پر بڑھ رہا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کی اقتصادیات بہت بری طرح متاثر ہوئی ہیں حتیٰ کہ مودی کو امبانی فیملی سمیت بھارتی صنعتکاروں کی جانب سے بھی مدد نہیں مل رہی ہے ، اندرون ملک بھارت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، جس میں اضافہ شہریت قانون نے بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش اور برما اور دیگر ممالک میں اس کے بارے میں نفرت بڑھ رہی ہے اور اس کی اپنی اکانومی اس وقت منہ کے بل گری ہوئی ہے۔ سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ حکومت کی بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہمیں فوائد مل رہے ہیں۔ اس خطے میں افغانستان ایک اہم ایشو ہے اور ہم نے وہاں امن کے قیام کی بے شمار کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اہمیت بھی مل رہی ہے اور ہمارا کردار تسلیم بھی کیا جارہا ہے۔ لیکن بھارت کو ہمارے اس کردار سے بہت تکلیف ہے اس نے کوشش کی کہ ہمیں نقصان پہنچائے۔ اسی لیے وہ ہمیں لائن آف کنٹرول پر نقصان پہنچاتا رہتا ہے مگر پاکستان نے تحمل کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے بھارت مایوسی بڑھ رہی ہے اور اس نے حال ہی میں چین سے جس طرح مار کھائی ہے اس وجہ سے بھی وہ اپنے ہمسائوں سے اچھے تعلقات نہیں رکھ پارہا۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے بتایا کہ سی پیک کے منصوبے نے یہاں حالت ہی تبدیل کردیے ہیں لہٰذا اب مستقبل میں یہاں اصل اہمیت اقتصادیات کو مل جائے گی بلکہ مل چکی ہے اسی لیے ہر ملک اب اپنے لیے معیشت کی بہتری کے مواقعوں کی تلاش میں ہے اور وہ کسی کا دم بھرنے کے بجائے اپنی معیشت کے لیے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر رہا ہے اور بھارت کو یہی تکلیف ہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے بتایا کہ بھارت کا اپنا رویہ ہی اسے اس خطہ میں تنہا کر رہا ہے اور ردعمل میں بھارت کشیدگی بڑھا رہا ہے اور یہ تمام صورتحال اس کی مایوسی کی علامت ہے۔ عالمی امور پر تجزیاتی کام کرنے والے ادارے آئی آئی آر آر ایس کے ڈائریکٹر جنرل جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ بھارت اپنے اندر گریٹر اسرائیل کی طرح گریٹر بھارت کے عزائم رکھتا ہے اور اس سارے خطے میں اپنی اجاراداری قائم کرنا چاہتا ہے اور تو اور وہ تو اپنی سرحدیں حرمین تک وسیع کرنا چاہتا ہے تاکہ بقول اس کے وہ بیت للّٰہ کو مسلمانوں سے چھین کر دوبارہ اپنا معبد خانہ بنائے اور اس کے لیے وہ اکھنڈ بھارت جس میں سارے پڑوسی ممالک آتے ان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ساتھ ساتھ بھارت ان ممالک کے اندرونی معاملات میں ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے ذریعے بد امنی اور شورش بربا کرتا ہے اس کے ان عزائم کے باعث اس خطہ کے مالک میں اس کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہوا ہے بھارت اس خطے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے اور اس کا منصوبہ ہے کہ وہ نہر سویز کے علاوہ سعودی عرب تک کا علاقہ اپنے اندر شامل کرے اسی لیے وہ خلیجی ممالک میں کام کر رہا ہے ،بھارت کے ان عزائم کے خلاف خطے کے ممالک میں تحفطات پائے جاتے ہیں اور اسی لیے اب یہاں اس کے لیے تنہائی ہے۔ بھارت کو یہاں تک پہنچانے میں خود بھارت کے توسیع پسندانہ رجحان کا بنیادی کردار ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ اس خطے میں چین کا کردار بڑھ رہا ہے اور بھارت کی توسیع پسندانہ پالسیوں کے خلاف ایک ردعمل آرہا ہے جس کی وجہ سے اب بھارت کے لیے یہاں کسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات کی کوئی زمین ہموار نظر نہیں آرہی ہے۔ سینئر جرنلسٹ فارن پالیسی کے ماہر تجزیہ کار مظہر طفیل کے مطابق بھارت چونکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو صرف اپنی حد تک محدود رکھنا چاہتا ہے اسی وجہ سے خطے میں پاکستان سمیت کوئی دوسری ریاست اس انداز میں بھارت کی بالادستی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی بناپرخطے کے تمام ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات میں کھنچائو کی کیفیت رکھتے ہیں ۔ جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے رہنما اقبال احمد خان نے کہا کہ بھارت کی سیاست کا محور ہندوتوا ہے۔ تنگ نظری، توسیع پسندی اور مکروفریب پر مبنی رویے ہندوتوا کی بنیاد ہیں۔ خطے کے ممالک میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بھارت کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ تحریک جوانان پاکستان کے چیئرمین اور دانش ور عبداللہ حمید گل نے کہا کہ بھارت اس خطے میں چین کے خلاف امریکی مفادات کے لیے کام کرتا ہے اور اس کے خلاف اسی لیے یہاں کے ممالک میں تشویش ہے۔ امریکا نے چونکہ یہاں اس خطے میں صرف بھارت پر توجہ دی اور چین نے تمام ممالک کے ساتھ دوستی رکھی اور انہیں ترقی کے منصبوں میں بھی شامل کرتا رہا۔ اب سی پیک جیسے منصوبے بنگلہ دیش تک بڑھ رہے ہیں تو اسی وجہ سے یہاں کے ممالک میں یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ امریکا تو دھونس دکھاتا ہے اور حکومتوں پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن چین دوستی کرتا ہے۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں ممالک چین کی جانب دیکھ رہے ہیں اور بھارت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔