کیا پاک بھارت جنگ ہو گی؟

550

کیا مستقبل قریب میں پاک بھارت جنگ کے خدشات ہیں یہ سوال پاکستان کے شہریوں اور بھارت کے باشندوں کے سامنے ہر وقت رہتا ہے۔ اس جنگ کے نتائج و مضمرات کیا ہوں گے۔ پھر اسی سے اور ضمنی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں یہ کیوں ہوگی اور اس میں پہل کون کرے گا اور یہ کہ کیا ایٹمی جنگ ہوگی یا روایتی جنگ۔ 1965کی جنگ میں ہندوستان کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی کہ میدان جنگ میں وہ شکست کھا چکا تھا، لیکن تاشقند مذاکرات میں پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر پاکستان ہار چکا تھا۔ جنگ کے نتیجے میں پوری قوم میں ایک یکجہتی کی فضا بن گئی تھی، یہی وہ چیز تھی جو ہمارے دشمنوں کو کھٹک رہی تھی اس لیے پاکستان کے دشمنوں بالخصوص بھارت نے ایک دوسری حکمت عملی اختیار کی کہ پاکستان کو اندر سے کمزور کیا جائے، اور اس جنگ کے ٹھیک 6سال بعد مشرقی پاکستان ہم سے علٰیحدہ ہو گیا۔
1974میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو اس وقت پاکستان کے سامنے سلامتی کا سوال آگیا کہ تین سال پہلے ہی ہمارا ایک بازو ہم سے جد اہو گیا تھا اور پاکستانی قوم مشرقی پاکستان کی جدائی کے صدمے سے دوچار تھی۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تہیہ کیا کہ ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے اور پھر بھٹو صاحب نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اس پر کام شروع کیا اور بالآخر 1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکا کرلیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد کس طرح مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے اسی طرح ایٹم بم کی داستان بیان کرنا بھی ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس ایٹمی دھماکے نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنا دیا لیکن ہمارا دشمن بھارت دن رات اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کسی طرح کوئی بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کردیا جائے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ جنگ روکنے کی کوشش کی ہے۔
جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ایک موقع پر یہ بات پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر تھی بھارت حملہ کرنے والا ہے۔ اس زمانے میں ہندوستان میں پاک بھارت کرکٹ میچ ہو رہا تھا، ضیا الحق کرکٹ دیکھنے کے بہانے بھارت چلے گئے، وہاں انہوں نے میچ بھی دیکھا اور راجیو گاندھی کو ایل بی ڈبلو آئوٹ کر کے بھی آگئے اور یہ جنگ ہوتے ہوتے رک گئی جنرل
ضیاء جب واپس آرہے تھے راجیو گاندھی ان کو رخصت کرنے کے لیے ائر پورٹ آئے جنرل ضیاء نے راجیو گاندھی سے رخصتی مصافہ کرتے ہوئے ان کے کان میں کچھ سرگوشی کی اور پھر تیز قدموں سے چلتے ہوئے جہاز میں آکر بیٹھ گئے، راجیو گاندھی ہکا بکا ہو کر رہ گئے بعد میں اس کی جو تفصیل آئی وہ یہ کے جنرل ضیاء نے راجیو سے کیا کہا۔ ضیاء صاحب نے کہا تھا کہ اگر پاک بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میں مسلمان تو باقی رہیں گے لیکن ہندو صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ضیاء صاحب ہی کے دور میں ایک اور موقع پر اس طرح کی خبریں عوام میں سینہ گزٹ کے طور پر چل رہی تھیں، پاکستانی ایجنسیوں کے پاس بھی اس کی مصدقہ اطلاعات تھیں بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس جنگ کو روکنے کے لیے پاکستان نے دو حکمت عملی تشکیل دیا جس سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ پہلا تو یہ کہ اسلام آباد کے ایک انگلش اخبار کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید نے بھارت کے اس وقت کیے معروف صحافی جو اب مرحوم ہوچکے ہیں کی ڈاکٹر قدیر سے ملاقات کروادی جنہوں نے ڈاکٹر قدیر سے انٹرویو لیا اور یہ اہم سوال کیا کہ کیا پاکستان ایٹم بم بناچکا ہے اب تک تو پورے بھارت میں برسوں سے افواہیں چل رہی تھیں۔ ڈاکٹر قدیر نے جواب دیا کہ ہم بنا چکے ہیں اگر جنگ ہوئی تو ہم پانچ سے دس منٹ کے اندر اس کو اسمبل کرکے چلا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر کا یہ انٹرویو جب بھارتی اخبارات میں شائع ہوا تو پورے بھارت میں کھلبلی مچ گئی۔ اسی طرح پاکستانی ائر فورس نے ایک سرکلر نکالا کہ دشمن کے ایک ہدف کو جا کر نشانہ بنانا ہے اس کاروائی میں زندہ واپسی کے امکانات بہت کم ہے جو پائلٹ اس مہم جانا چاہتے ہیں وہ اپنے نام دے دیں دوسرے دن سو سے زیادہ پائلٹوں نے اپنے نام دے دیے بھارت کے تمام اخبارات میں اس حوالے سے بھی خبریں شائع ہوئیں معلوم ہوا کہ پاکستان کی ایٹمی تیاری اور ائر فورس مجاہدین کے جوش و خروش نے جنگ کے خطرے کو ٹال دیا۔ جب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی لیے اقتدار میں آئے ہیں کہ پاکستان جنگ کی جائے۔
اب سے آٹھ دس برس قبل جاپان نے ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے کی مہم چلائی کہ انسانیت کو ایٹم بم سے بچایا جائے اور یہ کہ ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار کو ختم کرنے کی مہم چلائی جائے جاپانیوں کا یہ وفد پاکستان بھی آیا تھا یہ وفد ہر ملک میں حکمرانوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کررہا تھا جاپان کے اس وفد نے منصورہ میں قاضی حسین احمد سے بھی ملاقات کی۔ قاضی صاحب نے ان سے ایک سوال کیا کہ یہ بتائیے 1946 میں اگر جاپان کے پاس ایٹم بم ہوتا توکیا امریکا جاپان کے اوپر حملہ کرنے کی جرأت کر سکتا تھا۔ اس سوال پر وفد کے ارکان خاموش ہو گئے، ایک دفعہ جنرل یحییٰ خان نے یہ بیان دیا تھا دنیا اس وقت ایٹمی امن کے دور میں رہ رہی ہے۔ مطلب اس کا یہی ہے کہ جن بڑی طاقتوں نے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنائے ہوئے ہیں وہ ایک دوسرے پر اسی لیے حملہ نہیں کرتے کہ انہیں معلوم ہے کہ اس حملے کا سخت جواب آسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود مسلمانوں کو اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے وہ اسی لیے کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں چلو اب ان کا قصہ تمام کردو، پاکستان نے ایٹم بم اسی لیے بنایا ہے کہ کوئی ملک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔ پاکستان کے دشمنوں کی ایک ایک حرکات و سکنات کی اطلاع رکھتا ہے۔ کئی برس قبل کی بات ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسی کو بڑے قابل اعتماد ذرائع سے اطلاع ملی کہ بھارت اور اسرائیل مل کر کہوٹا پلانٹ پر حملہ کرنے والے ہیں، بر وقت معلوم ہو گیا تھا اس لیے ایک طرف تو اس حملے کی جوابی کاروائی کی تیاری کر لی گئی دوسری طرف دونوں ممالک کو سخت انتباہی پیغام دے دیا گیا اور اس کے مضمرات سے بھی آگاہ کردیا گیا تو یہ حملہ نہیں ہوا ہمارے دشمنوں بالخصوص ہندوستان اور اسرائیل کی نظریں ہمارے ایٹم بم پر ہے۔
پچھلے سال پلوامہ کا واقعہ ہوا جس میں 40بھارتی فوجی ہلاک ہوئے حسب روایت و حسب عادت پاکستان پر اس کا الزام لگایاگیا حال ہی میں یہ انکشاف ہوا کہ پلوامہ کا واقعہ خود حکومت بھارت کا اپنا رچایا ہوا ڈراما تھا تاکہ پاکستان پر حملے کا جواز بنایا جاسکے پھر 26فروری 2019 کی رات کو پاکستان کے کسی علاقے میں بھارتی ہوائی جہازوں نے بمباری کی اور ہندوستانی میڈیا سے دن بھر یہ پروپیگنڈا ہوتا رہا کہ ہم نے پاکستان کے ساڑھے تین سو دہشت گرد کو ہلاک کردیا دوسرے دن 27فروری کو پاکستان نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے ایک جہاز جو پاکستانی حدود میں گرا تھا تو اس کے پائلٹ کو گرفتار کرلیا گیا اسی دن شام کو بھارت کی سول و فوجی ہائی کمان کا اہم اجلاس ہوا اور اس میں پاکستان کے 8مقامات کو ہدف پر رکھ لیا پاکستانی ایجنسیوں کو اس کی بروقت اطلاع مل چکی تھی اسی وقت بھارت کو پیغام دیا گیا کہ ہم نے بھارت کے 12مقامات کو اپنے ہدف پر رکھ لیا ہے اگر کوئی حرکت کی تو سخت جواب دیا جائے گا اس کے بعد بھارت کی طرف سے حملے کی ہمت نہیں ہوئی اور یہ خطرہ بھی ٹل گیا۔ لیکن اب بھی بھارتی فوج سرحدوں پر موجود ہے۔ بھارت سے جنگ اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ پاکستان جدید ہتھیار اور میزائل بنارہا ہے پاکستان نے چھوٹے اور محدود ہدف کے ایٹمی میزائل بنائے ہیں، اسی طرح ابھی چند دنوں قبل شاہین میزائل 3 کا تجربہ کیا ہے جس کی پہنچ 2750 کلو میٹر ہے ہندوستان نے مالدیپ میں اپنا جنگی ہوائی اڈہ بنایا ہے اس میزائل کی پہنچ مالدیپ کے فوجی ہوائی اڈے تک ہے۔