مسئلہ کشمیر گزشتہ 74سال سے جنوبی ایشیا ءکے امن کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے ۔پورا خطہ بارود کے ایک ڈھیر پر ہے ،ذراسی چنگاری اس کو ایک لمحہ میں جلا کرراکھ کرسکتی ہے لیکن آگ کو دیوتا سمجھ کر اس کی پوجا کرنے والا مودی خطے کو جنگ کی آگ کے شعلوں کے حوالے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اہل کشمیر74 سال سے پاکستان کی تکمیل، سا لمیت اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیںمگر اقتدار کے ایوانوں میںمکمل خاموشی ہے ۔ خطاب اورٹویٹ کیے اور خط لکھے جارہے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کیا جارہا ۔ پاکستانی قوم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔ہم تحریک آزادی ¿ کشمیر کی پشتیبانی جاری رکھیں گے ۔!
بانی پاکستان قائد اعظم ؒ نے کشمیرکو پاکستان کی شہہ رگ قراردیاتھا مگر ملک پر مسلط حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کے بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کے باوجود ہمیشہ قوم کو مایوس کیا۔ مودی حکومت نے 17ماہ قبل کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کردیاتھا اور اسی دن سے کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن ہے ۔ہر گھر پر ایک فوجی بندوق تانے کھڑا ہے ،بازارویران اور مارکیٹیں بندہیں۔ہر طرف خوف کے سائے ہیں اور سراسیمگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،تعلیمی اداروں اور ہسپتالوںپر فوج کا قبضہ ہے ۔ ساری کشمیر قیادت جیلوں میں قید ہے یا گھروں پر نظر بند ہے ۔معیشت تباہ ہوگئی ہے ۔کھیتوں اور کھلیانوں میں فصلیں اور باغات اجاڑ دیئے گئے ہیں۔ ہر روز لوگوں کو گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے اور زمین دوزفوجی ٹارچرسیلوں اور عقوبت خانوں میں انہیں بدترین تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اب تک لاکھوں کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے کی پاداش میں شہید کردیا گیا ہے ۔ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزت پامال اور تارتار ہیں ۔ان سترہ ماہ میں 18ہزارسے زائد کشمیری نوجوانوں کو کشمیر میں قائم فوجی ٹارچر سیلوں سے بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے اور کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے لاکھوں ہندوؤں کو جن میں اکثریت شیوسینا،آرایس ایس اوربی جے پی کے مسلم دشمنی میں اندھے بدمعاشوں اور غنڈوں کی ہے ۔کشمیری زبان کی بجائے ہندی کو دفتری زبان بنانے کا ٹوٹیفیکشن جاری کردیا گیاہے ۔بھارت کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر بندباندھ کر ان کا رخ موڑ رہا ہے جس سے پاکستان کے دریاخشک اورزمینیں بنجر ہوجائیں گی اور ملک ایک صحرا کا منظر پیش کرے گا لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی خاموش ہے ، حکمرانوں کی غفلت اورلاپرواہی کی وجہ سے کشمیر میں جاری مظالم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے مجرمانہ خاموشی ا ختیار کررکھی ہے ، 5اگست 2019کو کشمیر کو بھارت کا حصہ قراردینے کے بعد سے مودی نے نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے
جس دن قوم کو یقین ہوگیا کہ حکمران واقعی کشمیرسے دستبردار ہوگئے ہیں ، اسی دن عوام حکمرانوں کو گریبان سے پکڑ کر اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کریں گے ۔ کشمیر کی آزادی کے لیے آخری گولی اور آخری سانس تک لڑنے کا ا علان کرنے والوں نے سترہ ماہ میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا ۔حکومت کی ہر حرکت مشکو ک ہو گئی ۔ حکومت کا فرض تھاکہ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد قومی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر مشترکہ لائحہ عمل بناتی اور اس پر عملدرآمد کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتی ۔ کشمیری اور پاکستانی قوم حکومت کی طرف سے فیصلہ کن اقدام کے اعلان کا انتظار کر رہی ہے ،چاہئے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ سے واپسی پر وزیراعظم آزادی کشمیر کا واضح روڈ میپ دیتے ، مگر ٹیپو سلطان کے راستہ پر چلنے کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم 27 ستمبر کی تقریر کے بعدسے چپ سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ کی تقریر کے الفاظ انہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔ حکومت ایکشن پلان کا اعلان کرے اور قومی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر فیصلہ کیا جائے کہ مودی کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو ناکام بنانے اور کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
کشمیر اس وقت چاروں طرف سے محاصرے اور دنیا کی بڑی جیل کا منظر پیش کر رہاہے ۔ کشمیر کو جیل خانہ بنانے میں پاکستان کے حکمرانوں کا بھی ہاتھ ہے ۔ بھارت کو ایل او سی پر باڑ لگانے کی اجازت پرویز مشرف نے دی ۔ اسلام آباد سنگ مرمر کا قبرستان بن چکاہے یہاں بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں مگر یہ انتہائی چھوٹے اور غیر سنجیدہ لوگ ہیں ۔ آٹھ ماہ تک کشمیر کمیٹی کا کوئی چیئرمین نہیں تھا ۔ پہلے فخر امام کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا اور جب انہوںنے کام شروع کیا تو ان کو بدل دیاگیا ۔ آج تک پاکستانی حکمرانوں کی ایک ہی پالیسی رہی ہے ،یہ بڑے بڑے نعرے لگاتے ہیں اور پھر ہر بات اور وعدے کو بھول جاتے ہیں ۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد واپس آ کر جنرل گریسی کی پالیسی پر چلتے ہوئے اعلان کیا کہ جو کشمیر کی طرف جائے گا وہ پاکستان کا غدار ہوگا ۔ حکومت جو اچھل کود کر رہی ہے یہ کشمیر کی آزادی کے لیے نہیں بلکہ قوم کو مطمئن کرنے کے لیے ہے ۔ اس حکومت کے آنے کے بعد معیشت تباہ اور معاشی نظام درہم برہم ہوگیاہے جس سے آزادی کشمیر کی تحریک کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے ۔ افغان قوم نے جراء ت کا مظاہرہ کیا چالیس ممالک کی افواج نیٹو اور امریکی فوج کو شکست دی اور بلآخر امریکہ کوگھٹنے ٹیکنے اور شکست تسلیم کرنا پڑی جبکہ ہماری حکومت مصلحتوں اور بزدلی کے اندھیروں میں گم ہے ۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنا۔
کشمیر کی آزادی کے لیے غیرت اور جراء ت مند قیادت کی ضرورت ہے مگر ان حکمرانوں کی صفوں میں کوئی محمود غزنوی ، سلطان ٹیپو اور محمد بن قاسم نظر نہیں آرہا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر وزیراعظم پاکستان کے سامنے رو پڑے کہ ہم کب تک اپنے معصوم بچوںاور جوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے ۔ صدر آزاد کشمیر حکمرانوں کے رویے سے مایوس ہیں ۔
مودی نے بابری مسجد کو رام مندر اور کشمیر کو بھارت کاحصہ بنانے کے دو وعدے پورے کردیے اور اب وہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہاہے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے قوم سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔
حکومت فیصلہ کن اقدام کا اعلان کرے، پوری قوم اس کی آواز پر لبیک کہے گی ۔ وزیراعظم کوتو سچ بولنے کی توفیق نہیں ، سچ یہ ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیاہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی ۔
قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اور کشمیر سے لاتعلقی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری رہے گی ۔ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پر اوآئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے ۔ خاموشی کو توڑا اور دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جائے ۔ جب تک آپ دشمن کو دوست سمجھتے رہیں گے ، نقصان اٹھائیں گے ۔ قرار دادیں کوئی راستہ نہیں ۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سینکڑوں قرار دادیں پاس کر چکی ہے جس پر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب قراردادوں سے بات بہت آگے بڑھ چکی ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرار دادیں فرار کی راہیں ثابت ہوئی ہیں ۔ حکومت نے بہت وقت ضائع کردیا اب اسے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا ۔
(1) حکومت قومی سیاسی قیادت کی کانفرنس طلب کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فوری طور پر نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کرے اوراس پر عمل درآمد کا روڈ میپ دے ۔حکومتی اور اپوزیشن ممبران پرمشتمل سفارتی وفود بیرون ممالک بھیجے جائیں۔آزاد کشمیر کی منتخب حکومت ان وفود کیلئے سہولت کار بنے ۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے ایک خصوصی نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جائے اورپاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔
(2)اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا جائے اور کشمیر کی آزادی کی آواز کو پورے عالم اسلام کی آواز بنایا جائے۔
(3)اوآئی سی کے اجلاس کی طرف سے اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر پر جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا جائے ۔
(4)بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد معاہدہ تاشقند، شملہ سمجھوتہ اور اعلانِ لاہور کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اس لیے پاکستان کے عوام حکومتِ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان معاہدوں سے علیحدگی اختیار کی جائے ۔
(5) بھارت کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کئے جائیں ،بھارتی سفیر کو واپس بھیجا جائے اورپاکستان کی فضائی حدود کو بھارتی طیاروں کیلئے بند کیا جائے ۔