مسئلہ کشمیر، فیصلہ کن گھڑی

216

۵؍فروری یکجہتی کشمیر کا قومی دن ہے، ریاست جموںو کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کے لیے لازوال جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور ۲۲کروڑ پاکستانیوں کے کشمیریوں کے ساتھ غیر متزلزل پشتی بانی کے اعلان کا دن ہے۔ برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بعد سات عشروں سے زائد مدت گزر گئی، دو نسلوں کا زمانہ گزر گیا، تیسری نسل زندگی کی زمام کار سنبھال رہی ہے اس ساری مدت میں ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے بھارت کے جبر، ظلم، غیر انسانی فاشسٹ روش کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ آزادی اور حق خودارادیت کے لیے اپنے عزم کو ہمیشہ جوان رکھا اور دنیا بھر میں آزادی کی بے مثال تحریک بن گئی ہے۔ ۷۳سالوں میں پاکستان نے آزادی کشمیر کے لیے اپنی شہ رگ کی بازیابی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، بہت نقصانات اٹھائے ہیں، لیکن پاکستان کی سیاسی عسکری پالیسی سازی میں دوقدم آگے پانچ قدم پیچھے کی حکمت عملی نے تذبذب پیدا کیا، کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور پاکستان کے لیے بھی خطرات بڑھتے ہی چلے گئے جب کہ بھارت نے جھوٹ، مکروفریب، ظلم و جبر اور جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ کو برقراررکھنے، ہڑپ کرنے کی حکمت عملی کے تسلسل کو قائم رکھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے آر یا پار کے فیصلہ کن مرحلہ پر پوری قوم یک جان اور یک آواز ہو جائے۔ ۵؍فروری یکجہتی کشمیر کا دن اسی حق اور عمل کا متلاشی ہے۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کے آئین میںعالمی برادری، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آرٹیکل 370اور A -35 کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کا صریحاً فاشسٹ اقدام کیا، کشمیریوں کے جذبات کو دبانے اور آواز کو کچلنے کے لیے تاریخ کا بدترین لاک ڈائون مسلط کیا۔ کشمیری مرد و خواتین، نوجوانوں اور محنت کشوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی، پوری دنیا سے بھارتی اقدام کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن بھارت کا آمرانہ، غیر جمہوری اور غیر انسانی ایکشن پلان جاری ہے۔ کشمیری قیادت سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، اشرف صحرائی، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض سمیت لاتعداد مرکزی اور مقامی قائدین نظربند اور دور دراز بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔ قیدتنہائی، بدترین اذیتیں اور سہولتوں سے محرومی بھگت رہے ہیں۔ آزادی پسند نوجوانوں کے گھروں کو بارود سے اڑایا جا رہا ہے۔ اسلام اور آزادی پسند سرکاری ملازمین پر جبری برطرفی مسلط کی جا رہی ہے۔ عام کشمیری کا روزگار چھن گیا ہے، نئی نسل پر تعلیم کی بندش ہے، معاشی وسائل کے تمام راستے مسدود ہیں نان شبینہ کا محتاج بنانے، آزادی اور حق خودارادیت کی راہ سے ہٹانے کے لیے استعماری حکمتِ عملی فاشسٹ مودی نے جاری رکھی ہوئی ہے۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر جس المناک اور فاشزم کی بدترین صورت حال سے دوچار ہے سیاسی، عسکری قیادت اور پوری قوم کو نئے جذبوں اور ولولوں کے ساتھ قومی کشمیر پالیسی پر متحد ہونا ہو گا۔ ۵؍فروری یکجہتی کشمیر کے لیے:
پوری قوم بلا امتیازسڑکوں پر نکل آئے، ریاست جموں و کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرے، بھارت کے مظالم کے خلاف اپنی آواز کو پوری طاقت سے بلند کرے، کشمیریوں کی پشتی بانی کے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا جائے۔
ملک میں سیاسی پارلیمانی بحران شدید ہے، لیکن زندہ اور بیدار قوموں کا شیوہ ہوتا ہے کہ قومی ترجیحات پر متحد ہوں، مسئلہ کشمیر ایسا مرکز ہے جس کے گرد قومی، سیاسی، حکومتی اور عسکری قیادت کو متفقہ کشمیر پالیسی پر متحد ہو جانا چاہیے۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بڑی حوصلہ افزا تقاریر کیں، بھارتی قیادت کو للکارا لیکن یہ المناک حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر واضح وژن اور نئی صورت حال کے تناظر میں سفارتی محاذ پر کوئی ایکشن پلان نہیں، کشمیری پاکستان سے مایوس ہو گئے تو یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک اور ہندوستان کے لیے بڑی آسانیاں پیدا ہوں گی۔
پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہے کہ اندورنی محاذ پر پوری قوم کو مسئلہ کشمیر پر متحد، یکسو اور یک جان رکھا جائے اور سفارتی محاذ پر بھارتی جھوٹ، فریب، ظلم، انسانی حقوق کی پامالی کے لیے فاشسٹ اقدامات کو بے نقاب کیا جائے یہ کام پوری قوم، پوری قومی قیادت اور پالیسی سازوں کی اجتماعی قومی ذمہ داری ہے۔عالمی برادری، اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں مودی سرکارکی جارحانہ حکمت عملی جس کے نتیجے میں پورا جنوبی ایشیا جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے کو لگا م دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں،اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیرکے محاذ پر سرنڈر، عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کا داغ اور تاثر گہرا نہ ہونے دے، کشمیر کو دوسرا سپین نہ بننے دیا جائے اس مسئلہ کے لیے جامع اورجارحانہ بین الاقوامی سفارتی مہم کا اہتمام ہو اور اقوام متحدہ میں وقفہ وقفہ گنڈے دار اور بے دلی سے نہیں پوری تیاری کے ساتھ مقدمہ کشمیر لڑا جائے۔
نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کمزور ترین پوزیشن میں ہے، مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بھارت کے مختلف حصوں میں بغاوت سر اٹھا رہی ہے، اقلیتیں ہندو برہمن، ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں۔ حکومتی ناکامی صرف کسانوں میں ہی نہیں ہر طبقے میں احتجاج زوروں پر ہے۔ یہ ہی مرحلہ ہے کہ بھارت پرہمہ گیر، بین الاقوامی سفارتی و قانونی دبائو بڑھایا جائے جس کے نتیجہ میں اہل کشمیر کو فوری ریلیف ملنے کے ساتھ ان کی حق خودارادیت کی جدوجہد منزل سے ہمکنار ہو سکے۔