اللہ کا شیر

632

ہمارے مربی محسن درویش صفت انسان حافظ سلمان بٹ اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ حافظ سلمان بٹ نے آخری سانسوں تک اپنے حلف کی پاسداری کی۔ وہ نوجوانوں، مزدوروں اور مظلوموں کے پشتیبان تھے۔ بد معاشوں قبضہ گروپوں اور مافیائوں کو وہ ہمیشہ للکارتے رہے۔ ان کی وفات سے سے دل غمزدہ اورآنکھیںنم ہیں۔ حافظ سلمان بٹ کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ایک نظریہ ایک جدوجہد تحریک اور ایک افسانوی کردار کا نام ہے۔ حافظ سلمان بٹ سے کوئی ایک بار ملاقات کر لیتا تو وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں ایسے عظیم لوگوں کے سایہ شفقت میں کام کرنے کا بار بار موقع ملا۔ حافظ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1985کے انتخاب میں قومی اسمبلی کی نشست میں ہونی والی کامیابی پر ان کے ودیگر ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کے اعزازمیں دیے جانے والے استقبالیہ میں ہوئی۔ حسن آباد پارک کورنگی کے ایریا کے پارک میں حافظ صاحب شیروں کی طرح دھاڑ رہے تھے۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی میں نے ایسا پرجوش خطاب اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ سنا اور میں حافظ صاحب کا ایسا گرویدہ ہوا کہ اب تک اس سحر سے نہیں نکل سکا۔ نواز شریف دور میں واجپائی کے استقبال کے موقع پر حافظ صاحب کو لٹن روڈ پر جماعت اسلامی لاہور کے دفتر کے پاس پولیس نے احتجاج کرنے پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تشدد سے ان کی آنکھ زخمی ہوئی تشدد سے آنکھ کے پردے کو شدید نقصان پہنچا ان کے متعدد آپریشن بھی ہوئے اور بینائی شدید متاثر بھی ہوئی۔ اسیران لاہور کا کراچی میں ہر ضلع میں استقبالیہ پروگرام مرتب کیا گیا تھا۔ اس وقت کے قیم سید منور حسن اور امیر ضلع شہید مرزا لقمان بیگ بھی لاہور سے اسیری کاٹ کر کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں استقبالیہ پروگرام مرتب کیا گیا۔ کورنگی میں کلو چوک پر عظیم الشان استقبالیہ پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ حافظ سلمان بٹ اس جلسے میں بڑے زور دار انداز میں گرجے اور حکمرانوں پر برسے۔ حافظ صاحب کی تقریر نے جلسہ میں ایک سماں باندھ دیا تھا اور چلتی ہوئی گاڑیاں رک گئیں اکثر لوگوں نے حافظ صاحب کا یہ انداز پہلی مرتبہ دیکھا اور سنا اور وہ حیرت سے انہیں دیکھ اور سن رہے تھے۔ حافظ صاحب کی تقریر پر جلسہ میں سکوت طاری ہوگیا تھا۔ حافظ صاحب کی یہ تقریر اکثر ہم آڈیو کیسٹ میں سنتے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔
شباب ملی پاکستان کا انہیں مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا اور اسلام آباد میں اجتماع عام کے موقع پر یوتھ کنونشن میں بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ فیاض چوہان اس وقت پنجاب کے نائب صدر تھے۔ حافظ صاحب نے ملک بھر میں نوجوانوں کو متحرک کیا اور قاضی حسین احمد مرحوم کی انہیں خصوصی سرپرستی حاصل تھی۔ پریم یونین ریلوے پر جب اشتیاق آسی نے شب خوں مارا تو حافظ سلمان بٹ این ایل ایف اور ریلوے میں متحرک ہوئے اور بہت جلد پریم یونین کو مزدوروں کی ہر دلعزیز یونین بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہر زون ڈویژن کی سطح پر تنظیم قائم کی گئی اور چومکھی کی لڑائی لڑ کر انٹرا الیکشن میں حصہ لیا اور پریم یونین کو سی بی اے یونین بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ میں نے نیشنل لیبر فیڈریشن میں حافظ صاحب کے ساتھ تقریباً 25سال کام کیا۔ اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیشہ انتہائی شفقت محبت کے ساتھ پیش آتے۔ عمر میں کئی بڑا ہونے کے بجائے ہمیشہ قاسم بھائی کہہ کر پکارتے تھے۔ مجھے ہی سے نہیں مجلس عاملہ کے ہر رکن اور فرد کے وہ اسی محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ غلط بات پر وہ سخت برہمی اور غصے کا اظہار کرتے۔ ساندہ روڈ پر این ایل ایف کے سیکٹریٹ کو منظم کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔
حافظ صاحب کی زندگی ایک نظریاتی اور تحریکی فرد کے لیے ایک ماڈل رول ہے۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں شیروں کی طرح زندگی گزاری۔ 1985کے غیر جماعتی انتخاب میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑکر انہوں نے صلاحیتوں کو منوایا۔ اس کے بعد متحدہ مجلس عمل کے دور میں لاہور سے میاں اظہر کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے وہ یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ آزاد حیثیت سے جیتنے والے حافظ صاحب نے یہ نشست جماعت اسلامی کے حوالے کی۔ جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی صرف ایک ووٹ سے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔ حافظ سلمان بٹ نے ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی اور کسی لالچ حرص کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا۔ حافظ صاحب کے والد لاہور کے ایک بڑے پولیس آفیسر تھے اور رزق حلال انہیںگھٹی میں پلایا گیا تھا۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ ان کے والد نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ اپنا ایک بچہ اللہ کی راہ میں دینگے اور انہوں نے اللہ سے کیا ہوا یہ عہد پورا کیا اور حفظ مکمل کرنے کے بعد مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے حوالے کیا اور پھر وہ دن اور ان کا آخری دن حافظ صاحب کا اوڑھنا بچھونا تحریک اسلامی ہی تھا۔
جامعہ پنجاب کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد طلبہ سیاست کو انہوں نے عروج بخشا۔ اس کے بعد قومی سیاست میں حصہ لیا۔ فٹبال کو مافیائوںسے بچانے کے لیے وہ میدان عمل میں اترے اور فیصل صالح حیات اور میاں اظہر سے ٹکرا گئے۔ این ایل ایف میں وہ کلیدی عہدوں پر فائز رہے اور سیکرٹری جنرل کے بعد اس سیشن میںوہ این ایل ایف پاکستان کے چیئرمین منتخب ہوئے اور آخری سانسوں تک وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے صحت خرابی کے باوجود پریم یونین کے لیے اپنا سکھ چین سب اس پر لگا دیا۔ ریل کا مزدور بھی حافظ صاحب پر اپنی جان چھڑکتا اور ان سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا تھا۔ ’’حافظ کہے گا تو ریل چلے گی‘‘ ریلوے کے مزدور کا مقبول ترین نعرہ بن گیا۔ حافظ صاحب کی کوششوں کے نتیجے میں ریلوے کے وفاقی وزیر سعد رفیق سے خصوصی مشاورت کی گئی اور ریلوے کے 70سے زائد ناکارہ انجنوں کو ریلوے ورکشاپ میں مینٹیننس کر کے 35 سے زائد انجنوں کو لائنوں پر لایا گیا جس کے نتیجے میں ریلوے کی بحرانی کیفیت ختم ہوئی اور ریلوے کو اربوں روپے کی بچت بھی ہوئی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور موجودہ امیر سراج الحق بھی حافظ صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور ان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔
حافظ صاحب نے بھی کبھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ وہ مولانا مودودی ؒ کی اصطلاح میں مرجع خلائق تھے۔
چند ماہ قبل جب ریلوے کے وزیر شیخ رشید کی پالیسیاں ریلوے اور اس ملازمین کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی تھی تو حافظ صاحب نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا اور کہا کہ ’’اب ریل اور شیخ رشیدایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ حافظ صاحب نے اکابرین جماعت اور این ایل ایف کے قائدین کو اعتماد میں لے کر وزیر اعظم عمران خان سے پریم کے سیکرٹری جنرل خیر محمد تونیو ودیگر عہدیداروں کے ساتھ وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کی اور ریلوے کے مسائل اور مشکلات پر تفصیلی بات چیت کی۔ ان کی ملاقات کے ایک ہفتہ کے بعد ہی شیخ رشید کو ریلوے کی وزارت سے ہٹا کر اعظم ہوتی کو ریلوے کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ حافظ سلمان بٹ محلاتی سازشوں کو خوب سمجھتے تھے ان کی پاکستان کی سیاست پر گہری نظر تھی۔ وہ ہمیشہ ظالموں، جابروں کو للکارتے تھے وہ مظلوموں کے سچے ساتھی تھے۔ پوری زندگی انہوں مجاہدوں کی طرح گزاری وہ اقبال کے شاہین تھے۔ چشم فلک نے دیکھاکہ دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ صوبائی اسمبلی کا رکن اور لاہور کے ایک بڑے پولیس آفیسر کے بیٹے کا جنازہ کرائے کے مکان سے اٹھایا گیا۔ حافظ محمد ادریس کی امامت میں جامع مسجد منصورہ کا جنازہ گاہ مرکزی شاہراہ آج چھوٹی پڑ گئی تھی۔ جماعت اسلامی، این ایل ایف، پریم اور زندہ دلان لاہور آج اپنے جیالے سپوت کو رخصت کررہے تھے۔ میانی صاحب قبرستان میں غازی علم دین شہید کے پہلو میں اللہ کے اس شیر کی تدفین کی گئی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق تدفین کے موقع پر خود موجود تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے اس بہادر سپوت کو منوں مٹی کے حوالے کیا۔ حافظ سلمان بٹ اپنے نیک اعمال، مسلسل اور لازوال استقامت، بلند قامت، لاثانی صلاحیت، پرعزم باوقار اور تحریک سے وفاداری کی اعلیٰ ترین مثال بن کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اللہ پاک انھیں اپنے سایہ رحمت میں اپنی شان کے مطابق اجر عطا فرمائے۔ حافظ صاحب نے درویشی میں اپنی پوری زندگی گزاری اور آخرت کوترجیح دی۔ اللہ تحریک اسلامی کو آپ کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے۔