دیوار گر گئی سایہ دیوار پر

491

مولانا فضل الرحمن کے بیان نے سیاست کی دنیا میں اعتبار کو مجروح کردیا ہے کہ اب انہوں انتہائی چالاکی اور ذہانت سے اپنے موقف کو یہ کہہ کر تبدیل کیا ہے کہ ہمارا اختلاف اور جدوجہد تو حکومت وقت کے خلاف ہے، اسٹیبلشمنٹ سے تو کچھ شکایات ہیں اور شکایات تو اپنوں ہی سے ہوتی ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو ان کے کئی ایسے بیانات آئے ہیں جن میں انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان یا ان کی حکومت کے خلاف مہم نہیں چلا رہے ہیں بلکہ ہماری اصل جدوجہد تو ان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔ اب اس موقف کی تبدیلی کو کیا نام دیا جائے۔ ویسے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے جتنے یوٹرن لیے ہیں اپوزیشن نے اتنے نہیں لیے ہوں گے، لیکن یہاں پر مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ن لیگ سے یا نواز شریف کے بیانیے سے مختلف ہو گیا اور کچھ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ بلاول زرداری کے بیانیے کے مطابق ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مولانا کچھ تھک گئے ہیں۔
2019 میں مولانا نے عمران خان کے خلاف دھرنا دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہم عمران خان سے استعفا لے کر ہی واپس جائیں گے پھر ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ مولانا نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا اس وقت کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ کہاں تو استعفے کے بغیر واپس نہ جانے کا کہہ رہے تھے اور کہاں اچانک واپسی کا اعلان کردیا۔ 3فروری بروز بدھ مولانا فضل الرحمن کا یہ سنسنی خیز بیان شائع ہوا ہے کہ ق لیگ نے مارچ میں حکومت گرانے کا وعدہ کیا تھا، ق لیگ قابل اعتماد نہیں رہی، کیونکہ اس نے جو کھیل کھیلا ہے اس سے لگا کہ وہ کسی کے لیے استعمال ہوگئے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سے کوئی بھی ڈیل نہیں کرسکتا سینیٹ چیرمین انتخاب کے حوالے سے ماضی کا ایک تجربہ موجود ہے جو کسی بھی صورت تحریک عدم اعتماد کو جاندار نہیں کہہ رہا ہے۔ جس پارٹی نے اس حوالے سے بات کی ہے وہ تمام فورم پر مطمئن کرے گی تو پھر تب ہی اس کو پی ڈی ایم کا فیصلہ کہا جائے گا۔ مولانا نے کہا کہ تحریکوں کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے کہ فوراً کارروائی کرنے کے بجائے کچھ مزید وقت دیا جاتا ہے تاکہ حجت پوری ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ رعایت کے دن ختم ہوچکے سخت فیصلوں کے دن قریب آچکے ہیں۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی درخواست کی ہے کہ مولانا بھی باہر سے پیسے لائے ہیں اس کی بھی تحقیقات ہونا چاہیے ملک کے ایک معروف صحافی نے ایک ٹاک شو میں بتایا کہ مولانا فضل الرحمن لیبیا کے کرنل قذافی اور عراق کے صدر صدام حسین سے مدرسوں کے نام پر پیسے لائے ہیں اس کی تحقیقات ہونا چاہیے بلکہ انہوں نے ایک اور اہم راز افشاء کیا کہ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ پرویز مشرف نے کابینہ کے اجلاس میں بتایا کہ مولانا فضل الرحمن بھارت سے بھی نقد رقم اپنی پارٹی کے لیے لائے ہیں اتنے اہم انکشاف کے باوجود مشرف صاحب مولانا کی سیاسی حمایت حاصل کرتے رہے۔
پی ڈی ایم بنا کر مولانا اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے تھے وہ بہت جلد موجودہ حکومت کو گرا دیں گے اس لیے کہ اس تحریک کے ابتدا میں تینوں بڑی پارٹیوں یعنی پی پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی کا موقف قریب قریب ایک ہی تھا یا یہ کہ دونوں بڑی جماعتیں مولانا کو استعمال کررہی تھیں کہ انہیں کہا گیا یہ اجلاس میں فیصلہ ہوا ہوگا کہ پریس بریفنگ میں یہ بات کہی جائے لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف ہو گا۔ اس بیان سے ایک بے چینی کی لہر کا ہونا فطری عمل تھا لیکن اس کے بعد ہی پی پی پی نے یہ اعلان کیا کہ وہ ضمنی انتخاب اور سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لیں گے اس طرح پی پی پی نے مولانا کو آگے بڑھا کر اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات سیدھے کرلیے۔ جبکہ اس سے پہلے پوری پی ڈی ایم یک زبان ہو کر کہہ رہی تھی کہ یہ اسمبلیاں جعلی ہیں اب اسی جعلی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن پی پی پی اور ن لیگ کی جس دیوار کے سائے میں بیٹھ کر موجودہ حکومت کو گرانے چلے تھے خود وہ دیوار پہلے کمزور ہوئی اور اب وہ مولانا کے اوپر گر گئی ہے اور مولانا وہی موقف اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں جو پی پی پی اور ن لیگ کا موقف ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لیا جائے اس کے بعد لانگ مارچ اور استعفوں کی بات کی جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخاب میں تحریک انصاف کو سب سے زیادہ کامیابی مل جائے گی جس کے بعد اس کی اندرونی اور بیرونی سطح پر سیاسی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔