سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں، چیف جسٹس

592

اسلام آباد:عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریماکس دئیے ہیں کہ سیاسی جماعت کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہیے، سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پارٹی میں ڈسپلن نہ ہوتو ایوان میں اکثریت کیسے رہے گی؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدوارجس کو چاہے ووٹ دے۔

اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ آزاد امیدوارکو تجویز اور تائیند کنندہ کہاں سے ملیں گے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت میں آنے والی جماعت انتخابی وعدے پورے کرنے کی باتیں کرتی ہے اور سینیٹ میں اکثریت پوری نہ ہوتووعدے کیسے پورے ہوں گے؟۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہیے جبکہ سیاسی جماعتوں میں بھی ڈکٹیٹر بیٹھے ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بھی تقریبا ساری جماعتیں ون مین پارٹی ہیں۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں 4غیرمنتخب افراد فیصلہ کرتے رہے کہ وزیراعظم کون ہوگا؟چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لوگ اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیکر تسلیم بھی کرتے ہیں۔انہوں نے ریماکس دیے کہ ضمیر کے خلا ف ووٹ دینے والے پارٹی سربراہ کے احکامات کے پابند تھے اور پارٹی سربراہ سب کی رائے لیکرفیصلہ کرے تو ہی بہتر ہوگا ملک میں سیاسی جماعتوں پارٹی سربراہان کے نام سے چلتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ فیصلے سے پہلے رکن اسمبلی کو پارٹی میں رائے دینی چاہیے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیے کہ آئینی طورپرسیاسی جماعتوں میں چیک ان ڈبیلنس ہونا چاہیے، جس کی اسمبلی میں اکثریت ہواسے سینیٹ میں اکثریت سے روکنا تباہ کن ہوگا۔

جج جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لوگ رکن پارلیمنٹ کو ووٹ اس کی پارٹی وابستگی کی وجہ سے دیتے ہیں اور پارٹی کے خلاف ووٹ دینا عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہوگا۔انہوں نے ریماکس دیے کہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ اوپن بیلٹ کی بات کرنے والوں کی نیت صاف نہیں ہے۔عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت (کل)جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی۔