کہاں ہے مہنگائی؟؟۔

573

وفاقی حکومت نے پٹرول کی قیمت مسلسل تیسری مرتبہ بڑھادی ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے دفتر سے جو بیان دیا گیا اور وزیراعظم نے جو بیان دیا اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ وزیراعظم آفس سے بیان جاری ہوا کہ اوگرا نے تو 13.18 روپے اضافے کی سفارش کی تھی لیکن عوامی مفاد میں صرف 2.70 روپے بڑھائے گئے ہیں۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ تیری مہربانی… اگر سفارش مان لیتے تو عوام کیا کرلیتے، لیکن وزیراعظم نے خوب بیان دیا کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے۔ حکومت سنبھالتے وقت مہنگائی کی جو شرح تھی اب مہنگائی اس سے نیچے آگئی ہے۔ جی بالکل ٹھیک اس وقت تنخواہ دو لاکھ تھی اب 8 لاکھ ہے۔ چناں چہ انہوں نے اپنی معاشی ٹیم کو حکم دیا کہ وہ مہنگائی پر کنٹرول رکھنے کے لیے چوکس رہے۔ وزیراعظم آفس کے تو کیا ہی کہنے لیکن وزیراعظم کو کیا ہوگیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں کچھ نہیں ہوا وہ بے نقاب ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس اب بتانے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ اعداد وشمار کے جادوگروں نے ان کو پٹی پڑھائی اور انہوں نے وہ پٹی پڑھ کر بیان کی صورت میں داغ دی۔ وزیراعظم کو عالمی بینک کے ماہرین اعداد وشمار دیتے ہوں گے لیکن ذرا گھر سے تو نکلیں جس شرح پر ان کے اقتدار کے وقت مہنگائی تھی اس میں 68 روپے لیٹر پٹرول تھا۔ انڈے 60 روپے درجن تھے، مرغی دو سو روپے کلو سے کم تھی، آٹا، چینی 65 اور 70 کے درمیان تھی۔ آٹا مہنگا ہوگیا۔ روٹی ڈبل روٹی مہنگی ہوگئی۔ سبزی اور پھل مہنگے ہوگئے، عمران خان ایسا کریں کہ خود اعداد وشمار پر گزارہ کریں عوام کو سستی اشیا فراہم کردیں۔ یہ لوگ اپنی سابقہ تقریریں کیوں نہیں سن لیتے جن میں یہ کہا کرتے تھے کہ پٹرول دنیا میں سستا اور پاکستان میں مہنگا ہے۔ اسد عمر فرماتے تھے کہ مسلم لیگ کی حکومت کا تماشا دیکھا ہے، گیس پاکستان سے نکلتی ہے اور اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اب وہ کیا فرمائیں گے۔ مسلسل تیسری بار پٹرول کی قیمت میں اضافہ، قدرتی گیس کی قیمتوں میں بار بار اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن اسد عمر فرمارہے ہیں کہ مہنگائی 5.4 فی صد رہ گئی ہے۔ اس قسم کے بیانات پر سر پیٹا جائے یا سر توڑا جائے یہ فیصلہ تو عوام ہی کو کرنا ہے۔
وفاقی وزرا کے بیانات پڑھ پڑھ کر تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ پاکستانی عوام بھارتی کسانوں کی طرح کیا سوچیں گے۔ پاکستان میں تو اتنے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ نہ حکومت متحد رہتی ہے نہ اپوزیشن۔ وزیر خارجہ چوں کہ خارجہ امور کے وزیر ہیں اس لیے وہ بھی ملک کے حالات سے واقف نہیں۔ وزیراعظم اور اسد عمر مہنگائی کم ہونے کی خوش خبری دے رہے ہیں۔ اور وزیر خارجہ کہہ رہے ہیں کہ آج کی مہنگائی ن لیگ کا تحفہ ہے۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی بڑھی ہے۔ ارے یہ قریشی، یہ فردوس اور دوسرے یہ بھی تو ن لیگ کا تحفہ ہیں یا پھر پی ٹی آئی میں پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے تحفے ہیں۔ شاعر کا بیٹا تخیلات ہی لاتا ہے وفاقی وزیر تخیلات بھی ہیں۔ فرمایا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے پٹرولیم کی قیمتیں بڑھانی پڑیں۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں اتنی کم ہوگئی تھیں کہ پاکستان میں مفت دیا جاسکے تو اس وقت بھی حکومت نے صرف چند دن کے لیے فائدہ پہنچایا۔ اس کے بعد سے پٹرول مافیا موجیں کررہی ہے۔ وزیراعظم نے درست فرمایا ہے کہ معاشی ٹیم چوکس رہ کر مہنگائی پر کنٹرول رکھے۔ جی ہاں ان کی معاشی ٹیم نے مہنگائی پر مکمل کنٹرول رکھا ہوا ہے۔ عوام کو کہیں سے بچ کر جانے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ ان کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے گفتگو سے صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ وزیراعظم کا وژن ہے یا وزن کہ انڈے مرغی کٹے سے آگے سوچ نہیں سکتا۔ ایک صاحب نے درست تبصرہ کیا کہ یہ وژن ہے!! ’’جب انہوں نے انڈے مرغی سے کاروبار کرنے کا آئیڈیا دیا تھا اس وقت انڈے 60 روپے درجن تھے۔ آج 180 سے 200 کے درمیان ہیں۔ آپ ہی سوچیں اس وقت انڈے خرید کر رکھ لیے ہوتے تو آج کتنا فائدہ ہوتا۔ اسی طرح اس وقت مرغیاں رکھ لی ہوتیں تو آج کتنا منافع ہوتا۔ یہ وزن نہیں وژن ہے بھائی‘‘۔
اصل کارنامہ تو پاکستانی عوام کررہے ہیں ان کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ کراچی میں سب کچھ تباہ کردیا گیا، کوئی نہیں اُٹھا صرف جماعت اسلامی میدان میں ہے لیکن لوگ اپنے ضروری کام سے سورہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مہنگائی دنیا بھر میں حکومتیں گرانے کا سبب ہوتی ہے لیکن پاکستانی حکومت بہت مضبوط ہے اس کا وزیراعظم، اس کے وزرا، اس کے حلیف سب اس حکومت کو گرانا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن انہیں سہارا دیتی رہتی ہے۔ اب تو حکومت کے وزیر دفاع ہی حکومت کو دفاع کرنے کی دھمکی دے بیٹھے۔ کہتے ہیں کہ چاہوں تو ایک دن بھی عمران حکومت نہ چلنے دوں۔ یہ اور بات ہے کہ تیز ہوا چلے تو ان کو اُڑنے سے کون بچائے گا۔ پی ٹی آئی کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے دعویٰ کیا کہ میں جس کی حمایت کروں آسمان پر ہوتا ہے اور جس سے اختیار لے لوں وہ صفر ہوجاتا ہے۔ لیکن عمران خان کے احسانات کی وجہ سے ایسا نہیں کررہا۔ وزیر دفاع کی زبان سے جو الفاظ نکل رہے ہیں وہ احساس تفاخر سے زیادہ غرور اور خدائی کے دعوے لگ رہے ہیں۔ یہ متکبرانہ انداز جنرل پرویز مشرف کا تھا۔ پرویز خٹک کو بھی سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے لیکن کیا کریں یہ بھی کسی کا تحفہ ہے، پی ٹی آئی کا ہیرا نہیں ہے۔ بہرحال مہنگائی کا یہ حملہ ہے تو عوام پر عوام بھی ٹی وی پر ٹاک شو میں اپوزیشن کا منہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بھی گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے اتنی بے حسی ہے اتنا زیادہ جھوٹ بولا جارہا ہے عوام کو لوٹا جارہا ہے لیکن کوئی ازخود نوٹس نہیں ہے۔ بیانات بھی نہیں ریمارکس بھی نہیں۔ پھر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کیوں نہ یاد آئیں جب انہوں نے عوام کو سی این جی پر 35 روپے کے لگ بھگ ریلیف دلوایا تھا۔ لیکن یہ چور چند برس میں سارا نقصان پورا کرکے پھر منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ سی این جی بھی کوئی چیز تھی۔ کہاں گئیں وہ آوازیں لٹکادیں گے، بند کردیں گے، ابھی حکم دیں گے، کل حکم دیں گے، 30 دن میں بنادو، ایک ماہ میں بحال کردو، سب ٹھیک کردیں گے۔ کیا ٹھیک ہوا؟ عوام کو کیا ملا۔ یہ سب مل کر انتظار میں ہیں کہ عوام فرانس کی طرح نکلیں یا عرب بہار کی طرح۔ پھر ان کا رخ ہوتا ہے نہ اصول۔ جس طرف یہ دریا بہہ نکلے سب کچھ بہالے جاتا ہے۔