یہ ایک کہاوت ہے، ہم بچپن سے اپنے بڑوں سے یہ مثل سنتے چلے آئے ہیں اس لیے اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی جب کوئی کام پھنس جائے اور کسی طرح سے وہ حل ہو کر نہ دے اور یہ کہ اس سے جان بھی نہیں چھڑائی جاسکتی اس وقت یہ محاورہ کو بولا جاتا ہے۔ جیسے محلے کا کوئی لڑکا اپنے دوست کو کوئی کام کہہ اور وہ دوست انکار بھی نہ کرے اور کام کرکے بھی نہ دے اس وقت وہ کہتا ہے ’ابے نہ آریا نہ جا ریا ہے کھڑا کھڑا مستا ریا ہے‘ یہ تو عوامی زبان ہے۔ لیکن بڑے جب کسی مسئلے میں الجھ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یار یہ مسئلہ تو ایسا ہو گیا کہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر جو اُگلتے بنتا ہے نہ نگلتے بنتا ہے۔
امریکا اور افغانستان کا مسئلہ کچھ اسی طرح کا ہوگیا ہے کہ امریکا کے حلق میں افغانستان اس طرح پھنس کر رہ گیا ہے کہ نہ اسے اُگلتے بن پارہا ہے اور نہ نگلتے بن پا رہا ہے۔ نائن الیون کا جو حادثہ ہوا اس میں امریکا کے بلند و بالا ٹوئن ٹاور زمیں بوس کر دیے گئے تو امریکا نے اس کا سارا غصہ افغانستان پر اتارا۔ اس سانحے کے جو ملزمان پکڑے گئے وہ سب عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے اس میں سے کوئی افغانستان کا تھا نہ پاکستان کا۔ لیکن امریکا نے افغانستان اور پاکستان کو اپنا ہدف بنا لیا۔ 1978میں جب روس اپنی فوج لے کر افغانستان میں داخل ہوا تو عام تاثر یہ تھا روس جہاں بھی گیا ہے وہاں سے واپس نہیں ہوا، اس سے قبل پوری دنیا سرد جنگ کا شکار تھی اور دو بلاکوں میں تقسیم تھی ایک امریکن بلاک کہلاتا تھا اور دوسرا رشین بلاک۔ امریکا نے کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا اور خاموشی سے تماشا دیکھتا رہا، پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت تھی وہ بین الاقوامی میڈیا یہ تبصرے بھی سن رہے تھے کہ روس کو چونکہ گرم پانی کے ساحل کی ضرورت ہے اس لیے وہ افغانستان کے راستے سے اپنے اصل ہدف پاکستان میں داخل ہونا چاہتا ہے۔
یہ جنرل ضیاء کی خوش قسمتی رہی کہ بے یار مددگار افغانیوں نے تن تنہا رشین یلغار کا مقابلہ کیا یہ ایک بڑی طاقت کے خلاف جدوجہد کا آغاز تھا یوں سمجھ لیں کہ یہ بیسویں صدی کی کفر و اسلام کی جنگ بن گئی پاکستان کی دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی نے اپنے مجاہدین روسی فوجوں سے لڑنے کے لیے بھیجنا شروع کر دیے جنہوں نے افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر روس کی پیش قدمی کو روک لگادی، جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے بنفس نفیس اس جہاد میں حصہ لیا، اس مرحلے پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستانی عوام سقوط مشرقی پاکستان کا بالواسطہ طور پر روس کو بھی ذمے دار سمجھتے تھے کہ روس نے 1971کی پاک بھارت جنگ میں کھل کر بھارت کا ساتھ دیا تھا اس لیے پاکستانیوں کے دلوں میں اس حوالے سے روس کے خلاف ایک نفرت تو پہلے سے موجود تھی اب روس سے بدلہ لینے کا وقت آگیا تھا۔ اس لیے ان دنوں میں پاکستانی فوج عوام اور حکمران سب ایک پیج پر تھے۔
امریکا نے جب دیکھا نہتے افغانیوں نے پاکستانیوں کے ساتھ مل کر مزاحمت کی ایک تاریخ بنائی ہے اس وقت اس نے سوچا کہ اب روس سے بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے تو پھر اس نے مدد کا آغاز کیا پوری دنیا سے افرادی قوت جمع کی جو امریکی یہاں آتے وہ بھی اپنی گفتگو اور بات چیت میں اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرتے تھے عرب ممالک سے بھی مجاہدین آئے یا لائے گئے بالآخر دس سال کی جنگ کے بعد یہ وقت آیا کہ روس کو افغانستان سے بے نیل و مرام یعنی خالی ہاتھ شکست کا داغ لے کر واپس جانا پڑا اس جہاد کے نتیجے میں پانچ اسلامی مملکتوں کو آزادی مل گئی۔ امریکا اب واحد طاقت رہ گئی روس تو عملاً ختم ہوگیا تھا۔ اب امریکا للچائی نظروں سے افغانستان کو دیکھنے لگا اس نے سوچا روس تو اس پر قبضہ نہیں کرسکا لیکن ہم کرلیں گے، اس پس منظر میں نائن الیون کا سانحہ ہوا یا ڈراما رچایا گیا اور اس کے بعد افغانستان پر امریکا نے حملہ کردیا افغانستان میں وہ مجاہدین جو روس کے خلاف جہاد میں حصہ لینے آئے تھے اب وہ امریکا کے خلاف برسرپیکار ہو گئے یہ امریکا ہی تھا جو پوری دنیا سے آنے والے مجاہدین کا پرتپاک استقبال کرتا تھا ان کی دیکھ بھال کرتا تھا ڈالروں اور ہتھیاروں سے ان کی مدد کرتا تھا اب وہی امریکا تھا جس نے ان مجاہدین کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔ اسامہ بن لادن جو ایک زمانے میں امریکا کی آنکھ کا تارا تھا اب وہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد بن گیا اسی لیے امریکا نے اس کو سمندر برد کردیا۔
2001 میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا اور یہ کہا کہ ہم افغانستان پر کارپٹ بمبنگ کرکے چند ہفتوں میں اس پر قبضہ کرلیں گے آج بیس سال اس افغان جنگ کو ہورہے ہیں امریکا کو ذلت و رسوائی کے ساتھ خاک چاٹنے کے سوا کچھ نہ مل سکا، اب سے چار پانچ سال پہلے تک کی بات ہے کہ جب یہ کہا جاتا تھا کہ افغان مسئلے کا حل یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں تو امریکا کی طرف سے جواب آتا تھا کہ دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی افغان مسئلے کے حوالے سے شروع سے یہی رائے تھی طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اب جب امریکا اپنے ہزاروں فوجیوں کے تابوت اٹھاتے اٹھاتے تھک گیا اور کھربوں ڈالرز اس جنگ میں جھونک چکا اور ہزاروں زخمی ہوئے اور اتنے ہی فوجی نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئے تو اس نے پاکستان کی منتیں اور ترلے کرنا شروع کردیا کہ کسی طرح طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے پھر اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آگیا کہ جب دنیا کی سب سے بری طاقت کمزور اور نہتے طالبان کے سامنے بیٹھ کر بات چیت کررہی تھی اور جن کو وہ ایک زمانے میں دہشت گرد کہتا تھا ان ہی سے وہ اپنی واپسی کا با عزت راستہ مانگ رہا تھا، بالآخر دوحا قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے 29فروری 2019 کویہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہمیں اس معاہدے کی تفصیلات میں نہیں جانا، بلکہ یہ نکتہ بتانا ہے کہ مذاکرات تو ہوگئے لیکن بد اعتمادی کی فضا ختم نہیں ہوئی۔ امریکا کے سابق صدر ٹرمپ اپنے قول وفعل کے تضاد بے سوچے سمجھے منہ پھٹ بیان دینے کی وجہ سے شروع سے تنقید کی زد میں رہے۔ لیکن ان کے دور صدارت میں دو کام ایسے ہیں جس کی تعریف کرنا چاہیے ایک تو یہ کہ انہوں نے جنگ کا کوئی نیا محاذ نہیں کھولا دوسرا یہ کہ وہ یہ چاہتے تھے کے مذاکرات کامیاب ہوں اور کسی طرح افغانستان سے امریکی فوجیں واپس آجائیں تاکہ آئندہ کا الیکشن وہ آسانی سے جیت جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کے حکمران یہ نہیں چاہتے کہ امریکی فوج افغانستان سے واپس جائے اسی طرح ہندوستان جس نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے وہ بھی نہیں چاہتا کہ یہاں سے امریکا واپس چلا جائے اس لیے اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی تو ان کی ساری سرمایہ کاری ڈوب جائے گی اور یہ کہ افغانستان میں اس نے جو چودہ کونسل خانے قائم کیے ہوئے ہیں اور جن کے ذریعے سے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتا ہے وہ سب ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد پھر جہاد کشمیر میں اور تیزی آجائے گی کہ افغانستان کی اسلامی حکومت مجاہدین کشمیر کی مدد ضرور کرے گی۔ ابھی حال ہی امریکا کے نئے صدر جوزف بائیڈن یہ جو بیان دیا ہے کہ طالبان اور امریکا کا جو معاہدہ ہوا ہے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اس بیان سے افغانستان کے موجودہ حکمرانوں اور بھارت کے حکمرانوں کی کچھ سانس بحال ہوئی ہے۔ لیکن یہ مذاکرات تو ہو رہے ہیں اور اس میں تعطل کی جو خبریں آرہی ہیں طالبان اس کی تردید کی ہے ہمیں امید ہے کہ جوزف بائیڈن بھی امریکا کا مزید نقصان نہیں ہونے دیں گے۔