سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مطلب اراکین کی خرید و فروخت جاری رہے، چیف جسٹس

500

اسلام آباد: سپریم کورٹ پاکستان نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس میں ریمارکس دیے کہ پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہلی نہیں تو یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہوگی، اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مقصد موجودہ سسٹم چلتا رہے، موجودہ سسٹم کے چلنے کا مطلب یہ ہے اراکین کی خرید و فروخت جاری رہے۔

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ صدر مملکت جاننا چاہتے ہیں اوپن بیلٹ کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے یا نہیں؟، پہلے دن سے مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی تو پھر مسئلہ کیا ہے؟، کوئی قانون منتحب رکن کو پارٹی امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند نہیں کرتا جبکہ ووٹ فروخت کرنے کے شواہد پر ہی کوئی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن اگر اوپن ووٹنگ میں بھی ووٹ فروخت کرنے کے شواہد نہ ہوں تو کچھ نہیں ہو سکتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اوپن بیلٹ کا مقصد سیاستدانوں کو گندا کرنا نہیں ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والوں کا احتساب 5 سال بعد ہو؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عوام کو علم ہونا چاہیے کس نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہلی نہیں تو یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہوگی، وزیر اعظم کو کیسے علم ہوا تھا کہ 20 اراکین صوبائی اسمبلیوں نے ووٹ بیچا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے کمیٹی بنائی تھی جس کی سفارش پر کارروائی ہوئی لیکن کارروائی پر وزیراعظم کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بن گیا۔ سزا دینے کے لیے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں مقدمہ آئینی تشریح کا ہے۔ ووٹرز تو کہتے ہیں ارکان اسمبلی ہماری خدمت کے لیے ہیں اور عوام اراکین اسمبلی کو اس لیے منتحب نہیں کرتے کہ وہ اپنی خدمت کرتے رہیں۔ عدالت نے کہا کہ پارٹی کو چاہیے عوام کو بتائے کس رکن نے دھوکہ دیا۔ ریفرنس پر عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں ہو گی اور حکومت کو ہر صورت قانون سازی کرنا ہو گی۔ حکومت نے قانون سازی کرنی ہے تو کرے مسئلہ کیا ہے ؟۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اٹھارہویں ترمیم میں بہت کچھ تبدیل کیا گیا، مگر سینیٹ کے سیکرٹ بیلٹ کو تبدیل نہیں کیا گیا اس کی کیا وجہ تھی؟۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہی تو میرا شکوہ ہے۔

چیف جسٹس پا کستان نے کہ کہ پارلیمنٹیرنز اوپن بیلٹ کی مخالفت کس بنیاد پر کریں گے اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مقصد موجودہ سسٹم چلتا رہے، موجودہ سسٹم کے چلنے کا مطلب یہ ہے اراکین کی خرید و فروخت جاری رہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینٹ الیکشن میں پارٹی امیدوار کو ووٹ لازمی دینے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت (کل) جمعرات کو  پھر ہوگی۔