کیا درسگاہیں ، ٹی وی ڈرامے اور فلم انڈسٹری طلاق کی شرح کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے؟

1118

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) ہماری بڑی کوتاہی ہے کہ ہم نے فلم انڈسٹری اور ٹی وی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا ہوا ہے جوڈراموں اور فلم کے ذریعے نوجوان نسل کو برباد کررہے ہیں اور ہم اپنا سر پیٹ رہے ہیں ،کیونکہ اس شعبے میں مثبت سوچ کے حامل لوگوںکے آنے کا کو ئی رجحان نہیں ہے،پاکستان جیسے معاشرے میں بیوی اور شوہر کے شادی کے بعد بھی تعلقات رکھنے جیسے بے معنی موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں جس سے اس کو دیکھنے والے اس سے غلط مطلب اخذ کر کے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے حوالے سے تعلیمی اداروںاور والدین کی جانب سے باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی ہے ، لہٰذا میڈیا اور دیگر ادارے طرز عمل کی ترقی کو ایک اہم ذریعہ بناتے ہیں۔ ہم اپنی درس گاہوں کو درست کر لیں تو اس میں تربیت حاصل کرتی نوجوان نسل، مستقبل میں جس بھی شعبہ سے وابستہ ہو تہذیب اور بلند معیار کو خود حاصل کر لے گی اور طلاق کی شرح خود بخودکم ہوجائے گای۔ان خیالات کا اظہارجماعت اسلامی خیبر پختونخواحلقہ خواتین کی رہنما و ممبر صوبائی اسمبلی حمیرا خاتون،صدارتی ایوارڈ یافتہ پاکستان کی مشہور ادیبہ، ڈرامہ نویس وکالم نگار،حسینہ معین ، آئی ایس آر اے(اسرا) یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ نفسیات کے سربراہ و ماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل راشد خان اورخادم علی شاہ بخاری انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( کیسبٹ) کے رجسٹرار ڈاکٹر کامران خان نے جسارت کی جانب سے کیے گئے سوال کیا درسگاہیں‘ ٹی وی ڈرامے اور فلم انڈسٹری طلاق کی شرح کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ؟کے جواب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔جماعت اسلامی خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی حمیرا خاتون نے کہا کہ نئی نسل کی زندگیوں میں درسگاہوں کا اہم کردار ہے۔ بچے اساتذہ کی سنتے بھی ہیں ان کی مانتے بھی ہیں اور ان کے رول ماڈلز بھی ہوتے ہیں،موجودہ دور میں ٹی وی ڈرامے، فلم اور سوشل میڈیانوجوانوں میں بہت زیادہ اثر انداز ہونے لگا ہے۔اگر ان کے ذریعے نوجوانوں کی صحت مند نشوونما کے لیے پر وگرام ترتیب دیے جائیں تو یہ بھی اس سماجی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن ہم اس کا دوسرا رخ دیکھتے تو ہمیں لگتا ہے کہ آج کل ڈرامے اور فلموں کے ذریعے معاشرے میں طلاق اور عدم برداشت میں اضافہ ہورہا ہے۔جو کچھ آج کل دکھایا جارہا ہے وہ کسی صورت پاکستان کے کلچر کے ساتھ ملاپ نہیں کرتا ہے۔اس سے ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے،موجودہ نشر ہونے والے ڈراموں میں نوجوانوں کو ایک الگ خوابوں کی دنیادکھائی جارہی ہوتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان ڈراموں سے خاص طور پر لڑکیاں متاثر ہوتی ہیں ، لباس‘ طرز گفتگو، رہن سہن ڈراموں کے کردار کی صورت زندگی پر اثرانداز ہوجاتا ہے، جو عملی زندگی میں مشکلات کا سبب بنتا ہے‘پاکستان میں دکھانے جانے والے ڈرامے چند فیصد لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ طلاقوں کی شرح میں صرف کراچی میں ہی نہیں پورے پاکستان میں اضافہ ہورہا ہے۔ان سماجی مسائل کی ذمہ دار جہاں دیگر چیزیں شامل ہیں وہیں اس میں درسگاہیں، فلم، ٹی وی اور سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم درسگاہوں میں دیگر اسباق پڑھارہے ہیں اسی طرح بچوں کو آنے والی زندگیوں کے بارے میں تربیت دینے کے لیے اس کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے جس میں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے حوالے سے کورسز ہوں، اور خاص طور پر شادی سے قبل بچوں کو اس حوالے سے تربیت کے لیے انہیںبہتر طریقے سے سمجھایا جائے۔ ایسے ٹی وی ڈراموں کو پروموٹ کرنا چاہیے اور ایسے لوگوں کو سامنے لانا چاہیے جو کم از کم خاندانی نظام کے بچائو،معاشرتی اقدار اور دیگر سماجی حوالے سے سمجھ بوجھ رکھتے ہوں،اور ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔ اگر اس فیلڈ میں اچھے لوگ آجائیں تو ٹی وی ڈراموں اور فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے ایسے لوگوں کی پذیرائی یقینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ترکی کاڈرامہ ارتغرل نشر ہورہا ہے اور اس کو جس طرح پذیرائی ملی ہے اس میں تو کوئی طلاقوں کے حوالے سے خرافات نہیں دکھائی گئی ہیں اور یہ ڈراما پاکستان میں بہت مشہور ہوا ہے‘ اور لوگ ترک ڈراموں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے ڈراموں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں ہماری بڑی کوتاہی ہے کہ ہم نے فلم انڈسٹری اور ٹی وی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا ہوا ہے جوڈراموں اور فلم کے ذریعے نوجوان نسل کو برباد کررہے ہیں اور ہم اپنا سر پیٹ رہے ہیں ،کیونکہ اس شعبے میں مثبت سوچ کے حامل لوگوںکے آنے کا کو ئی رجحان نہیں ہے۔اس پر معاشرے میں بحث ہونی چاہیے اور ایسے لوگوں کو مدعو کرنا چاہیے جو اس شعبے میں آنا چاہتے ہیں، ان کو اس کی ترغیب دینی چاہیے اور ایسے لوگوں کو عزت دینی چاہیے۔ حسینہ معین نے کہا کہ موجودہ دور میں جن موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے عکاسی نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی مثبت پیغام دیا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں بیوی اور شوہر کے شادی کے بعد بھی تعلقات رکھنے جیسے بے معنی موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں جس سے اس کو دیکھنے والے اس سے غلط مطلب اخذ کر کے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ یہی ڈرامے ہیںیہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں ہے کہ90 کی دہائی میں جو ڈرامے بنتے تھے وہ حقیقی زندگی کے بہت قریب ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اْس وقت جب پاکستان کے سرکاری چینل پر کوئی ڈرامہ نشر کیا جاتا تو سڑکیں خالی ہو جاتی تھیں،مگر اب بچے اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ڈرامہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ان میں ایسے جملے استعمال کیے جاتے ہیں جو بچوں کو والدین کے سامنے شرمندہ کر دیتے ہیں ‘صرف ریٹنگ کا خیال کیا جاتا ہے‘سب سے بڑی چیز جو ہو رہی ہے،وہ یہ کہ ڈرامے میں عورتوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے‘ کبھی گھر سے نکالا جا تا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ اس سے ریٹنگ بڑھتی ہے۔کیا گھروں میں ایساہوتا ہے اتنی بد تہذیبی آگئی ہے‘ میں نے توآج تک نہیں دیکھی۔ ہر ایک میں ایک ہی کہانی چل رہی ہے۔دو لڑکیاں ایک آدمی‘ دو آدمی ایک لڑکی، سا س بہو کا جھگڑا، ماں بیٹی کا جھگڑااور اب تو خیر دوسرے معاملات اتنے کھلم کھلا دکھائے جا رہے ہیں کہ لگتا ہے ہر گھر میں ہی کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔لڑکی ا سکول سے بھاگ کر لڑکے کے ساتھ بائک پر جارہی ہے۔بہنیں ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہیں،ایک بہنوئی کے لئے لڑ رہی ہیں‘پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایک بہن کی غیر موجودگی میں دوسری کا نکاح کر کے رخصتی پہلے والے کی کر دی ۔ہم حیران پریشان دیکھ رہے ہیں اگر یہ حالات ہیں تو کیا کہہ سکتے ہیں۔ میں توڈرامہ دیکھتی ہی نہیں‘ جو کبھی اتفاقاً نظر پڑی وہی بتا رہی ہوں۔انہو ںنے کہا کہ میںلگ بھگ 50ٹی وی سیریلز لکھ چکی ہوں۔ اب ڈراما، ڈراما نہیں رہا، پروڈکٹ بن گیا ہے۔ آج کل کے ڈراموں میں بری زبان استعمال کی جاتی ہے، گالم گلوچ ہوتی ہے۔ بری ڈریسنگ ہوتی ہے، اور زیادہ تر وہ چیزیں دکھائی جارہی ہیں، جن کا ہمارے معاشرے، کلچر، مذہب میں کوئی تصور ہی نہیں ہے اب میرٹ اور معیار پر زیادہ توجّہ نہیں دی جاتی ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل راشد خان نے کہا کہ ٹی وی اور فلمیں معاشرے کے ثقافت اور اصولوں کی عکاسی کے لیے اہم ہیںکہ وہ عوام کی رائے کو تشکیل دیتے ہیں اور مستقبل کی سمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ٹی وی ڈرامے اور فلمیں معاشرے میں جاری رجحانات کے بھی عکاس ہوتے ہیں۔بشمول شادی اور طلاق کے‘ چونکہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے حوالے سے والدین کی جانب سے کوئی باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی ہے ، لہٰذا میڈیا اور دیگر ادارے طرز عمل کی ترقی کو ایک اہم ذریعہ بناتے ہیں۔انہو ںنے کہا کہ لوگ مشہور شخصیات اور بااثر افراد سے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ شادی اور طلاق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کامران خان نے کہا کہ آپ کا سوال اپنے اندر بہت سے پہلو پوشیدہ رکھے ہوئے ہے۔ میرے نزدیک درس گاہوں کا فلم اور ڈراما انڈسٹری کا موازنہ کرنا باالعموم غلط ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے فلم اور ڈراما درس گاہوں سے کسی طور غلط ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ درس گاہوں میں دی جانے والی تربیت فلم اور ڈرامے میں جھلکتی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی ہم اپنی درس گاہوں کو درست کر لیں تو اس میں تربیت حاصل کرتی نوجوان نسل، مستقبل میں جس بھی شعبہ سے وابستہ ہو تہذیب اور بلند معیار کو خود حاصل کر لے گی۔ اسی طرح یہ تربیت گاہیں یا درس گاہیں مستقبل کے خاندانوں کا سبب بننے والے نوجوانوں کو کچھ اس طرح سے تعلیم و تربیت دیں کہ یہ نوجوان نسل مرد و عورت کے حقوق، میاں بیوی کے فرائض، ماں باپ کی ذمہ داری، اور بیٹی بیٹا کی تربیت سمیت تمام اہم ذمہ داریوں سے واقف ہوں گے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں یقیناً طلاق کی شرح ختم تو نہیں البتہ کم ضرور ہو جائے گی۔ اور یہی درس گاہیں ہمارے معاشرے کے ادب سے جڑے لوگوں خاص طور پر ڈراما اور فلم لکھنے والوں کا معیار بھی بڑھا دے گی۔ یوں ٹی وی اور فلم کی کہانیاں بھی معاشرتی برائیاں جس میں طلاق بھی شامل ہے، جو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ گویا درس گاہیں بنیادی طور پر دور رس نتائج دینے میں اپنا کردار احسن طریقے سے نبھا سکتی ہیں۔