حکمران اور بیانات

685

 

اگر ہم حکمرانوں کے اخباری بیانات کو جمع کرنا شروع کردیں تو ان پر صرف ایک سطری تبصرہ بھی بہت ہوگا۔ سب سے پہلی خبر اگر گزشتہ بدھ کے اخبارات کی دیکھیں تو شبلی فراز صاحب کی معرکہ آرا خبر ہے کہ اوپن بیلٹ کے معاملے پر پارلیمان بھی جاسکتے ہیں۔ اس پر سوال بجا ہے کہ پھر عدالت کیوں گئے تھے۔ دوسری ٹاپ اسٹوری ہے کہ تحریک انصاف نے جے یو آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس دائر کردیا۔ بہت خوب۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
چیئرمین نیب کا بیان بھی خوب ہے کہتے ہیں کہ: ’’ایک تاجر نے بھی نیب کی وجہ سے ملک چھوڑا ہو تو میں گھر چلا جائوں گا‘‘۔ اس کا جواب یہی دیا جاسکتا ہے کہ تاجر گیا ہو یا نہیں آپ تو گھر چلے جائیں۔ فواد چودھری چوں کہ ڈبل ہیں اس لیے ان کے دو جملے زیر تبصرہ آگئے۔ پہلا یہ کہ اپوزیشن کو سیاسی نابالغوں نے یرغمال بنالیا۔ ان سے سوال ہے کہ حکومت کس نے یرغمال بنالی؟ کیا وہاں سارے سیاسی بالغ ہیں۔ دوسرا: ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سنجیدہ لوگ متبادل قیادت نہیں۔ کیوں مذاق کرتے ہو۔ پی ٹی آئی میں آنے والے ان پارٹیوں کے سنجیدہ لوگ ہیں کیا؟۔ اعظم سواتی صاحب نے شیخ رشید کی جگہ ریلوے سنبھالی فرمانے لگے کہ ریلوے کی ایک ایک انچ زمین واگزار کرائوں گا۔ بھائی پہلے بکنگ کا نظام تو بحال کرالو ایک دن میں کروڑوں کا نقصان ہوگیا۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کے دو جملے لیے تو سابق وزیر اطلاعات شیخ رشید کیوں محروم رہیں۔ چناں چہ ان کے تو زیادہ جملے بنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے پی پی اور مسلم لیگ کی نہیں مولانا فضل الرحمن کی فکر ہے۔ بھائی تجھ کو پرائی کیا پڑی۔ شیخ صاحب نے مزید فرمایا کہ کسی دشمن کو ملک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بجا فرمایا۔ وہ خود ہیں ناں۔ کسی دشمن کو اجازت کیوں دیں گے۔ خود نقصان پہنچائیں گے۔ ایسے بیانات دینے میں صدر مملکت کیوں پیچھے رہیں۔ آخر ان کا بھی حق ہے۔ فرمایا ڈاکٹر صاحب نے: ’’وزیراعظم یکساں ترقی کے لیے اقدامات اٹھارہے ہیں‘‘۔ بھائی کس کی ترقی ہورہی ہے۔ دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے۔ ایک اور مزیدار خبر تصویر اور ویڈیو کے ساتھ وائرل ہوئی۔ وہ گورنر ہائوس کی گاڑی میں کتے کی سیر کی تھی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اونٹ نگل لیتے ہیں اور مچھر چھانتے ہیں۔ ارے ایک گورنر ہائوس کی ایک گاڑی میں ایک کتا دیکھ کر سب چونک گئے۔ سرکاری گاڑیوں میں تو پورے ملک میں کتے ہی گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کوئی ان کو دیکھ کر نہیں چونکتا لیکن گورنر ہائوس کی گاڑی میں کتا دیکھ کر ویڈیو بنالی گئی۔ اس کی وضاحت بھی آگئی کہ گاڑی میں صرف کتا نہیں فیملی بھی تھی۔ پھر مزید وضاحت آئی کہ صرف کتا تھا۔ بہرحال کتوں سے لگائو کا پی ٹی آئی سے گہرا تعلق ہے۔ وزیراعظم خود سنگین ترین حالات میں کتوں سے کھیلتے ہیں۔ بعض ناقدین یہ جملہ یوں کہتے ہیں کہ کتوں میں کھیلتے ہیں۔ لیکن سندھ ہائی کورٹ سکھر بنچ نے عجیب حکم جاری کیا ہے۔ حکم ہے کہ ایم پی ایز کتا مار مہم میں حصہ لیں گے۔ عدالت چاہتی کیا ہے۔ ایم پی ایز کتا مار مہم کی نگرانی کریں گے لیکن ان کو بہت احتیاط رکھنی ہوگی۔ کون سا کتا مارنا ہے کون سا نہیں۔ بعض کتے پٹے والے ہوتے ہیں اور بعض کا پٹا نظر نہیں آتا کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔ ذرا سا اندازہ غلط ہوا اور پٹے والے کتے پر ہاتھ پڑ گیا تو ایم پی اے کی رکنیت تو گئی۔ پتا بھی صاف۔
سندھ کی بات ہوئی تو وزیراعظم کی بات یاد آگئی۔ شیخ رشید کی طرح کی بات کی ہے کہ کسی دشمن کو اجازت نہیں دیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے عجیب بات کی ہے۔ ویسے اکثر عجیب بات ہی کرتے ہیں۔ کہنا ہے کہ کراچی کو سندھ حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ صوبائی حکومت ساتھ نہ دے ہم ذمے داری پوری کریں گے۔ یہ بات انہوں نے ایسے وقت پر کہی ہے جس وقت وہ ارکان اسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ روپے کے فنڈز دینے کا اعلان کررہے تھے۔ کراچی کے پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 14 ہے، اس کا مطلب 7 ارب روپے ہے۔ اگر کراچی کے ارکان قومی اسمبلی اپنے اپنے حصے اور دوسرے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں بھی یہ رقم لگائیں تو کراچی کی ترقی کے لیے عمران خان کا دعویٰ حقیقت بن جائے گا۔ چند برس میں سات ارب روپے سر چڑھ کر بول رہے ہوں گے۔ لیکن یہ سوال خود کروڑ روپے بلکہ کروڑہا روپے کا ہے کہ کیا ارکان قومی اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز سے کبھی ترقی ہوئی ہے۔ یا یہ فنڈز کبھی ترقی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہے کہ ہاں اس سے ترقی بھی ہوئی ہے اور ترقی کے لیے استعمال بھی ہوئے ہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے۔ یعنی جس کو فنڈز ملے ہیں اس کی ترقی بھی ہوئی ہے اور اسی کی ترقی پر فنڈز لگے بھی ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ کراچی سے پی ٹی آئی کے بعض اراکین تو ایسے ہیں کہ وہ کسی اجلاس میں بھی نظر نہیں آتے۔ کسی کام میں ان کا نام بھی نہیں۔ یقینا فنڈز انہیں ملیں گے اور عوام حسب معمول منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ یہ سیاسی رشوت جنرل ضیا الحق کے زمانے میں 50 لاکھ سے شروع ہوئی تھی لیکن اب 50 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی نے اس کی وجہ بتادی ہے کہ پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ تو پھر ہر چیز کے ریٹ بھی بڑھیں گے۔ لیکن پانچ برس گزار کر عمران خان یہ کہتے ہوئے جارہے ہوں گے کہ
کس لیے آئے کیا کر چلے
میاں خوش رہو ہم صدا کر چلے
شاید یہ صدا وہی ہے جو وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر لگاتے تھے۔ اوئے شوباز شریف… لٹیرو… ڈاکوئوں… چھوڑوں گا نہیں۔ سلام ہے کپتان کو آخری دن تک یہی کہتا رہا کہ چھوڑوں گا نہیں۔ مقطع بھی دلچسپ ہے عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن تعریف کرے تو میں اپنی توہین سمجھوں گا۔ گویا وہ چاہتے ہیں کہ اپویزشن کل سے ان کی تعریفیں شروع کردے۔