لاہور (نمائند ہ جسارت) امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے کہا ہے کہ براڈشیٹ اسکینڈل اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس سے ثابت ہو گیا ہے کہ کرپشن کا کلچر ملک میں سالہاسال سے فروغ پا رہا ہے، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس کو مزید تقویت ملی۔کرپشن نے سوسائٹی کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ حکمران طبقے کی بدعنوانی کی وجہ سے ہر سال پوری دنیا میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے جبکہ صاحب اقتدار طبقے کو رتی برابر شرم محسوس نہیں ہوتی۔ دہائیوں سے پاکستان کے ریسورسز پر قابض اشرافیہ نے اداروں کو مضبوط کرنے اور پائیدار نظام کی تشکیل کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا ہے جبکہ دوسری جانب وہ اکثریت ہے جنھیں زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ ملک میں کروڑوں افراد کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر، فیکٹریوں اور ہوٹلوں اور چائے کے ڈھابوں پر مزدوری کر رہے ہیں۔ فیکٹری مزدور، کسان، تنخواہ دار طبقہ سب پریشان ہیں۔ لاکھوں نوجوان ڈگریاںاٹھائے بے روزگار پھر رہے ہیں۔ نااہل اور ظالم حکمرانوں نے عوام کو بدحال اور ملک کو تماشا بنا دیا۔ پی ٹی آئی کے ڈھائی سال میں کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، ادارے متنازع ہوئے، احتساب کا مذاق بنایا گیا، مافیاز نے اربوں کمائے اور زراعت اور صنعت کا بیڑہ غرق ہوا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کروڑوں کے فنڈز دے کر وزیراعظم نے ثابت کر دیا کہ اپنے دعوئوں سے مکرنے اور یوٹرنز میںان کا کوئی ثانی نہیں۔ ملک میں جمہوریت کو تماشا بنا دیا گیا۔ پاکستان کو صالح اور ایماندار قیادت کی ضرورت ہے۔جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی عوامی، جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اورہم نے ملک کوسیکولر بنانے کی سازشوں کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ختم نبوت کے عقیدے کے خلاف عالمی سازشیں ہو رہی ہیں جس کے خلاف امت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اتحاد امت میں ہی پاکستان اور عالم اسلام کے مسائل کا حل مضمر ہے۔ ملک کو ایک دیانتدار، بے باک اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر ایٹمی پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرے۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ ڈھائی برس میں ملک کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیے نہ ہی کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی پلاننگ کی۔ ایک کنفیوژن کی پالیسی برقرار ہے۔ لنگرخانے تعمیر ہو رہے ہیں اور لوگوں کو مرغیاں پالنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ اداروں کی دھڑا دھڑ پرائیویٹائزیشن کا عمل جاری ہے اور اربوں ڈالر قرض لیا جا رہا ہے۔