اپنی پرفارمنس پر توجہ دیجیے

599

جاوید میاں داد کرکٹ کی دنیا کا ایک ایسا روشن ستارہ ہے جس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑ سکتی۔ جاوید میاں داد 1976 میں کرکٹ کی ٹیم میں شامل ہوئے اور 1996 کا ورلڈکپ کھیل کر ریٹائر ہوئے۔ جس وقت وہ مدراس کے میدان سے اپنا آخری میچ کھیل کر جارہے تھے، ایک لاکھ کے لگ بھگ شائقین نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر انہیں کرکٹ کی دنیا سے خدا حافظ کہا۔ 20سال تک کرکٹ ٹیم میں رہنے اور پانچ ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزاز دنیا کے بہت کم کرکٹرز کو حاصل ہے۔ جاوید میاں داد ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔ جاوید میاں داد کے اتنے طویل عرصے تک ٹیم میں رہنے کی وجوہات کیا ہیں حالانکہ درمیان میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ وہ ٹیم سے باہر کردیے گئے تھے۔ لیکن دوبارہ ان کو پھر ٹیم میں شامل کرلیا جاتا۔
میرے خیال میں اتنے طویل عرصے تک ٹیم میں رہنے کی دو، وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ وہ تنازعات کا بہت کم شکار رہے، اپنے ساتھی کرکٹر اور پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے عہدیداران کے خلاف کبھی کوئی اخباری بیان نہیں دیا اور نہ ہی وہ کبھی کرکٹ بورڈ کے مخالف فریق بنے اپنی پوزیشن کو صاف رکھنے کے لیے اپنے اوپر عائد الزامات کے کچھ نپے تلے الفاظ میں جوابات تو دیے لیکن اپنے جواب میں جوابی الزامات سے گریز ہی کرتے رہے۔
دوسری اہم وجہ یہ رہی کہ میاں داد وہ واحد کرکٹر ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی پرفارمنس پر توجہ مرکوز رکھی، یہی وجہ ہے کہ ان کو ٹیم سے نکالنے کا فیصلہ کرنا کرکٹ بورڈ کے ذمے داران کے لیے بہت مشکل ہوتا، جاوید میاں داد کو مرد بحران بھی کہا جاتا تھا ٹیم کسی مشکل میں ہو اور کریز پر جاوید میاں داد موجود ہوں تو شائقین کو اور گھروں میں ٹی وی پر میچ دیکھنے والے ناظرین کو پاکستان کے جیتنے کی امید رہتی تھی، جب تک میاں داد کریز پر رہتے لوگ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہتے ان کے آئوٹ ہونے کے بعد ناظرین اکثر ٹی وی بند کر دیتے پاکستان کے کئی میچ ایسے ہیں جو جاوید میاں داد کی وجہ سے جیتے گئے۔ شارجہ کا میچ اس کی بہترین مثال ہے آخری کھلاڑی توصیف احمد تھے، جو بنیادی طور پر بالر تھے، آخری اوور کی دو گیندیں باقی تھیں توصیف بیٹنگ پر تھے لوگوں کے دل دھڑک رہے تھے یہ کہیں آئوٹ نہ ہو جائیں کہ اس وقت پانچ رنز کی ضرورت تھی لیکن وہ ایک رن بنانے میں کامیاب ہو گئے اور بیٹنگ کے لیے میاں داد آگئے آخری اوور کی آخری بال اور چار رنز کی ضرورت، اس وقت فل ٹاس گیند پر جاوید میاں داد نے جو چھکا لگایا وہ کرکٹ کی تاریخ میں امر ہو گیا اور پاکستان ہارا ہوا میچ جیت گیا۔
ہمارے ملک میں طرفہ تماشا یہ ہے کہ کھیل کے میدان میں سیاست اور سیاست کے میدان میں کھیل ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں یہ بھی کرکٹ کی دنیا کے عظیم کھلاڑی رہے ہیں اور ان کی کپتانی میں پاکستان نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ مجموعی حیثیت میں عمران خان کی کرکٹ میں کارکردگی بہت اچھی رہی ہے انہوں نے بھی تنازعات میں الجھنے سے گریز کیا ایک بار کسی وجہ سے انہوں نے کرکٹ کی کیپٹن شپ سے استعفا دے دیا ضدی طبیعت ہونے کہ وجہ اپنا استعفا واپس لینے پر تیار نہیں ہوئے اس وقت جنرل ضیاء الحق کو درمیان میں آنا پڑا اور صدر پاکستان کے کہنے پر انہیں اپنا استعفا واپس لینا پڑا۔ عمران خان بھی میاں داد کی طرح بہت کم تنازعات میں الجھے لیکن ان کی شخصیت ایسی رعب دار تھی (جو اب بھی ہے) کوئی ان سے پنگا نہیں لیتا یا یوں سمجھیے کہ کوئی بلا وجہ کی اڑ پیچ نہیں کرتا تھا عمران خان اپنے کھلاڑیوں کا مورال بلند کرنے کے لیے ان کے کھیل کی تعریف کرتے تھے، کسی پر تنقید بہت کم کرتے تھے لیکن جو ان پر تنقید کرتا پھر اس کا کیریئر ختم ہو جاتا، باہر کسی ملک میں میچ تھا اس میں قاسم عمر نے ایک اوور میں چار چوکے لگائے تھے، ان کی بہت تعریف و توصیف کی گئی واپسی پر یہ کسی بات پر عمران خان سے لڑ پڑے، اس واقع کے بعد قاسم عمر پھر ٹیم میں نظر نہیں آئے۔
عمران خان اور جاوید میاںداد کے درمیاں بظاہر انڈر اسٹینڈنگ تو نظر آتی تھی لیکن اختلافات بھی شدید تھے۔ لیکن عمران خان نے جب بھی پبلک میں جاوید میاں داد کے بارے میں بات کی تو یہی کہا کہ میاں داد دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی ہیں وہ کریز پر جرأت اور بہادری سے بیٹنگ کرتے ہیں، یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے سارے کھلاڑی ہیلمٹ کے ساتھ بیٹنگ کے لیے آتے جبکہ میاں داد بغیر ہلمٹ کے آتے ایک دفعہ بمبئی کے کسی میچ میں ان کے سر پر گیند لگ گئی مہینوں وہ زیر علاج رہے اس کے بعد سے وہ ہلمٹ پہننے لگے۔ عمران خان کے بھی طویل عرصے تک کرکٹ میں رہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنی پرفارمنس بھرپور توجہ رکھی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے کھلاڑی ساتھیوں کی ان کے کھیل کی ہمیشہ حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔ ان کی قوت برداشت بھی بہت تھی۔
میں نے کرکٹ کے کھیل کی اتنی لمبی تمہید جو باندھا ہے وہ ملکی سیاست کے حوالے سے ہے۔ عمران خان کو ڈھائی سال ہو گئے وزیر اعظم بنے ہوئے وہ ملک میں معاشی انقلاب لانا چاہتے ہیں انہوں نے اپنی جو ٹیم بنائی ہے اس پر چاروں طرف سے تنقیدیں بھی بہت ہو رہی ہیں، وہ ضد کے بھی پکے ہیں۔ ایسے لوگوں کو غصہ بھی جلدی آتا ہے، غصے میں تو وہ پہلے بھی رہتے تھے لیکن سیاست کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد انہوں نے اپنے اندر کچھ قوت برداشت پیدا کی تھی پچھلے کسی انتخاب میں ن لیگ نے ان کے خلاف اخلاقیات کے دائرے سے باہر رہ کر انتخابی مہم چلائی اور ملک کے اخبارات میں سیتا وہائٹ کی تصویر چھاپ کر عمران کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا لیکن عمران خان نے صبر اور برداشت سے کام لیا ن لیگ نے تو ایک موقع پر بے نظیر کی قابل اعتراض تصاویر کو ہوائی جہاز کے ذریعے شہروں اور دیہاتوں میں گروایا یہ تو خیر اس پارٹی کا وتیرہ رہا ہے۔
اب جو عمران کے خلاف گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم کے نام سے تشکیل پایا ہے اور موجودہ حکومت کے خلاف مہم چلا رہا ہے اس کے اندر جو تین بڑی جماعتیں ن لیگ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف ہیں ان کے درمیان خود آپس میں شدید اختلافات ہیں۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان نے اپنی پوری کابینہ کو پی ڈی ایم کے خلاف لگا رکھا ہے ہر وزیر اپنے محکموں کو دیکھنے کے بجائے پی ڈی ایم کے الزامات کا جواب دینے میں لگا ہوا ہے۔ عمران خان کو اپنی گورنس پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے اور ملک میں جو روز بروز مہنگائی بڑھ رہی ہے اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان بھی ہے۔ بقیہ ڈھائی سال عمران خان اپنی پرفارمنس کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو آئندہ انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔