پارلیمنٹ ہاؤس عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی اکھاڑبنتا جارہا ہے

261

اسلام آباد ( رپورٹ: میاں منیر احمد) شاہراہ دستور پر قائم مجلس شوریٰ کی عمارت عوام کے منتخب نمائندوں کا ہائوس ہے مگر کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر یہاں منتخب نمائندے ملکی ترقی کے لیے اپنا نکتہ نگاہ بیان کرنے سے معذور دکھائی دیتے ہیں، تحریک انصاف وفاقی حکومت ہونے کے باعث پارلیمنٹ کے اجلاس چلانے کی بنیادی طور پر ذمے دار ہے، تاہم اپوزیشن کے ساتھ سیاسی برتائو، رکھ رکھائو اور ڈائیلاگ کی ضرورت کم ہی محسوس کی جاتی ہے، کم و بیش 75 روز کے وقفے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تو اپوزیشن کی جانب سے پہلا اعتراض یہی اٹھایا گیا کہ اجلاس کی اطلاع ٹی وی چینلز پر چلنے والے ٹیکرز سے ملی ہے، پارلیمانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اجلاس بلایا جائے تو ارکان اسمبلی کو بروقت اطلاع نہ پہنچائی جائے۔قومی اسمبلی کا اسپیکر با اختیار ہوتا ہے، بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں شیخ رشید احمد کلاشنکوف کیس میں گرفتار ہوئے تو اس وقت کے اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے اپنی حکومت کی خواہش نظر انداز کرکے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک کرنے کے لیے پروڈکشن آڈر جاری کیے تھے، گرفتار ارکان اسمبلی کے لیے پروڈکشن آدر جاری کرنا اسپیکر کا اختیار ہے، تاہم اس دور میں یہ قانونی اور آئینی سہولت گرفتار ارکان اسمبلی کے لیے کچھ مشکل دکھائی دے رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی چلانے میں حکومت بھی مشکل میں رہتی ہے کہ اپوزیشن اپنا آئینی اور قانونی حق مانگتی ہے، اس وقت قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے علاوہ پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی سید خورشید شاہ نیب کی حراست میں ہیں یہ حراست انہیں بطور رکن اسمبلی پروڈکشن آرڈر سے محروم نہیں کرسکتی، تاہم فیصلہ اسپیکر کو کرنا ہے اس فیصلے میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اب جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جاچکا ہے اور ملک میں سیاسی کشیدگی بھی موجود ہے اس لیے اپوزیشن نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اجلاس کے لیے وہ سب کچھ کرے گی ، یہ صورت حال اسپیکر کے لیے تسلی بخش نہیں اسی لیے اپوزیشن کے ساتھ ایوان چلانے کے لیے کوئی مشترکہ اور متفقہ طریق کار طے کرلیا جائے تاکہ ایوان میں قانون سازی کی جاسکے، حالیہ اجلاس میں حکومت 16 نکاتی ایجنڈا لائی ہے جس میں پمز اسپتال سمیت 3 سرکاری اسپتالوں کے لیے جاری آرڈیننس میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ ( ایم ٹی آئی) پیش کرنا بھی شامل ہے، اس کے خلاف پمز میں گزشتہ 50دنوں سے ہڑتال جاری ہے، ملک میں مہنگائی اور یوٹیلیٹی اسٹورز سے ا شیائے صرف کی مہنگے داموں فروخت کا معاملہ بھی اپوزیشن نے توجہ مبذول کرائے جانے کے نوٹس کے ذریعے اٹھانا ہے، یوں یہ اجلاس معمولی نوعیت کا نہیں ہے، اسی حکومت چاہتی ہے کہ اجلاس کے لیے اپوزیشن کے ساتھ ایک پیج پر ہونا ضروری ہے،بلاول بھٹو کے ان ہاؤس تبدیلی کی تجویز کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سر جوڑ لیے ہیں۔ اس سلسلے میں اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں کا ان ہاؤس تبدیلی کے معاملے پر اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مشاورت ہوگی تاہم پارلیمنٹ کی سطح پرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطے جاری ہیں۔ پرویز خٹک کے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ رابطے ہیں جبکہ پارلیمانی کارروائی پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف برقرار ہے، اپوزیشن نے اپنے مطالبات پر تحریری ضمانت طلب کرلی ہے۔ اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے برابر وقت طلب کرلیا، قومی اسمبلی کوایڈوائزری کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق چلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن نے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ نہیں کیا، خورشیدشاہ اور خواجہ آصف کے پروڈکشن آرڈر کا بھی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ معاہدے پر عمل نہ ہونے پر آئندہ قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے، واک آؤٹ کر کے اجلاس نہ چلانے کی کوشش کی جائے گی، قومی اسمبلی کے اجلاس میں کورم کی نشاندہی کرائی جائے گی۔ اپوزیشن اپنے مطالبات پرویز خٹک کو پیش کرے گی، ان ہاؤس تبدیلی پر بھی مشاورت کی جائے گی، دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 27 جنوری کو طلب کرلیا ہے،اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزرا شریک ہوں گے، اجلاس میں مردم شمار کے نتائج کے اجرا سمیت کئی اہم امور زیر غور آئیں گے، امکان ہے کہ اجلاس کے بعد مردم شماری کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نیپرا کی سالانہ رپورٹ پیش کی جائے گی جبکہ 18 ویں ترمیم کے بعد ہائر ایجوکیشن کے معاملات پر غور ہوگا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد اور اوگرا آرڈیننس میں ترمیم کا جائزہ بھی لیا جائے گا یہ اہم ترین امور ہیں، ان کے لیے پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کا باہم ایک ہونا ضروری ہے، اس سے ہٹ کر ایک اور مسئلہ براڈشیٹ کی شکل میں سامنے آیا ہوا ہے اور اس کے لیے حکومت نے عدالت عظمیٰ کے سابق جج، جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں مشن بنانے کا اعلان کیا ہے، اپوزیشن اس کمیشن کی سربراہی کے لیے ان کے نام پر معترض ہے، یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کے کیریئر اور ریٹائرمنٹ میں 3 وزرائے اعظم کا اہم کردار رہا ہے ،جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید نے ایک سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ لڑا، ایک کے خلاف مقدمے کی سماعت کی اور اب تیسرے وزیر اعظم نے انہیں تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنا دیا ہے ،عدالت عظمیٰ کے سابق جج دسمبر 2004 ء میں سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور پھر اسی ہائی کورٹ کے لگ بھگ 6 ماہ کے لیے چیف جسٹس بھی رہے۔1997ء میں جب نواز شریف دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے تو سابق وزیر اعظم اور اس وقت کی قائد حزب اختلاف بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس کی پیروی کرنے والی ٹیم میں جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید بھی شامل تھے۔جسٹس عظمت سعید احتساب بیورو کے وکیل کی حیثیت سے بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف حکومت کے خاتمے تک پیش ہوتے رہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما پیپرز کے معاملے پر جب عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید اس5رکنی بینچ کا نہ صرف حصہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے 2سینئر جج ساتھیوں کے ساتھ اختلاف کیا اور اس معاملے پر کمیشن بنانے کی حمایت کی، ملک کی پارلیمنٹ اپنے قانونی اور آئینی اختیار کے اعتبار سے قومی مفادات کی نگہبان ہے، مگر اسلام آباد میں ایک ایسا فیصلہ بھی ہوا ہے کہ جسے پارلیمنٹ کی راہداریوں سے نہیں گزارا گیا، اطلاع ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں واقع سب سے بڑے ایف نائن پارک کو گروی رکھ کر قرض لینے پر غور کر رہی ہے۔اس حوالے سے دستیاب وفاقی کابینہ کے ایجنڈے کے مطابق ایف نائن پارک کی زمین کے بدلے اجارہ سکوک بانڈز جاری کرنے کا معاملہ زیر غور لایا جائے گا۔کابینہ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے سمری وزارت خزانہ نے جمع کروائی ہے اس سے قبل بھی سرکاری عمارات کے بدلے سکوک بانڈ جاری کرنے کے لیے عمارات کی قیمتوں کا تعین کیا جا چکا ہے ۔معاشی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ناسمجھی کا نتیجہ ہے ایف نائن پارک اسلام آباد کے پورے سیکٹر کے رقبے پر مشتمل ہے اسلام آباد کے شہری پارک سے بدستور مستفید ہو سکیں گے کیونکہ سکوک بانڈ میں صرف پراپرٹی کو ضمانت کے دور پر مینشن کیا جاتا ہے گزشتہ حکومتیں قومی اثاثوں کی ضمانت کے عوض بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈالرز کا قرض لیتی رہی ہیں موجودہ حکومت نے بھی مالی مشکلات اوربجٹ سپورٹ کے لیے قرض حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے وزارت خزانہ نے سکوک جاری کرنے کے حوالے سے کہتی ہے کہ سکوک شرعی اصولوں کے مطابق قرضے کے حصول کا ایک ذریعہ ہے حکومت پاکستان نے کئی مرتبہ موٹر ویز (ایم ون، ایم ٹو اور ایم تھری) اور جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کے عوض سکوک جاری کر چکا ہے حکومت کے دیگر اثاثوں بشمول اسلام آباد ایکسپریس وے، علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ اور ایف نائن پارک کی نشاندہی کی جاچکی ہے، ایک اہم بیان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک شدید خطرات میں ہے، حکمران کوئی بڑی غلطی کر سکتے ہیں۔ حکومت کو گھر بھیجنا اس وقت بہت ضروری ہو چکا ہے۔ سابق صدر نے پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چودھری منظور احمد سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم متحد ہے، اپوزیشن جماعتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے حکومت سے نجات کے لیے پی ڈی ایم تمام آپشنز بتدریج استعمال کرے گی اگلے چند مہینے ملکی سیاست کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔ حکمرانوں کو اب مزید کورونا کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے۔ یہ لوگ نہ ویکسین خرید سکے نہ ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ کورونا کی صورتحال میں عوام کی مدد کر سکے ہم نے 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے باوجود ایکسپورٹ بڑھائی، ملک کا ریونیو ڈبل کیا، ملازمین کی 125 فیصد تنخواہیں بڑھائیں اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں 100 فیصد اضافہ کیا اناڑی حکمرانوں نے آج ملک کے تمام عشاریے منفی کر دیے ہیں۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ سلیکٹڈ حکمران اپنے وزن سے خود گریں گے بس اب ایک آخری دھکے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی اس ناکام اور نااہل ٹولے کو گھر بھیجے گی۔ وفاقی وزرا کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ایک بار چھوڑ کر 100 بار تحریک عدم اعتماد لائے، اسے شکست ہوگی۔ پی ڈی ایم کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں، براڈ شیٹ پاناما ٹو ہے، پی ٹی آئی حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے وفاقی وزرا نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بھرپور مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو کھلا چیلنج کر دیا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر کے بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو آئینی طور پر تسلیم کرلیا، اب سلیکٹڈ کہنا بند کر دیں وزرا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے پاس ووٹ ہیں تو وہ خوشی سے تحریک عدم اعتماد لائیں، ہم اس کا سامنا کریں گے پی ڈی ایم کے پاس کوئی پلان نہیں، استعفوں سے شروع والوں کی بس ہو گئی، اب بات عدم اعتماد کی گفتگو پر آ گئی ہے کسی مائی کے لال میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی جرات نہیں ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تاعمر قید اور نااہلی سے بچ گئے تو غنیمت سمجھے گا ۔