اسرائیل سے تعلقات کا مقصد وسیع تر صہیونی ریاست کا قیام ہے

413

 

کراچی (رپورٹ: منیب حسین) عالم اسلام میں اسرائیل کو ایک غاصب ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کیوں کہ یہ ملک سرزمین فلسطین پر برطانوی استعمار کے ہاتھوں قائم کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1948ء سے آج تک اسلامی ممالک نے اسے قبول نہیں کیا۔ صرف 1949ء میں ترکی نے اپنے سیکولر دور میں اسے تسلیم کیا۔ اس کے بعد 1979ء میں امریکی آشیرباد سے مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور 1980ء میں مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان دونوں ممالک کے بعد 1996ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں شاہِ اردن حسین اول اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین نے امن معاہدے پر دستخط کرکے تعلقات کے قیام کا اعلان کیا۔ ان تین مسلمان ممالک
کی جانب سے اسرائیل کو قبول کرنے کا اقدام دہائیوں کے فرق سے اور مختلف عوامل کے باعث سامنے آیا، تاہم عالم اسلام میں کبھی بھی صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کی منظم مہم یا لہر نہیں چلی۔ اس کی وجہ مسلمان عوام کا اس غاصب ریاست کو ناپسند کرنا، اور اس کے وجود کو ناجائز اور اُمت کے لیے خطرہ سمجھنا ہے۔تاہم گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اُمت مسلمہ کے متفقہ موقف میں دراڑیں ڈالنا شروع کیں اور ٹرمپ کے یہودی داماد ومشیر برائے مشرقِ وسطیٰ جیرڈ کشنر نے کئی عرب ممالک کو رام کرکے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش شامل ہیں۔ چاروں ممالک نے 4 ماہ کے مختصر عرصے میں یہ افسوس ناک قدم اٹھایا، جس کے باعث ناصرف ان کے عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔ اسرائیل سے تعلقات کی اس لہر کے اسباب ووجوہات کیا ہیں اور عرب عوام اس پیش رفت کو کیسے دیکھتے ہیں، اس حوالے سے نیویارک میں مقیم اخوان رہنما اور ماہر قانون وشریعت اسماعیل ترکی کا جسارت سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں اس تیزی کی وجہ یہ ہے کہ عرب حکمران اقتدار تک پہنچنے اور اسے دوام بخشنے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے احسان مند رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے عرب ممالک میں سرکاری سطحوں پر ایسے گروہ، کاروباری شخصیات اور ذرائع ابلاغ کو کھڑا کیا گیا ہے، جو اپنے وسائل اور اموال سے مغرب اور اس کے لے پالک اسرائیل کے مفاد میں کام کرتے ہیں، اور فریقین کے درمیان اسٹرٹیجک اتحاد قائم رکھتے ہیں۔ تاہم اب خطے میں مشرقِ وسطیٰ کی قیادت باضابطہ طور پر اسرائیل کے سپرد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ جو اس سے اتفاق کرے گا وہی بچے گا اور مغربی حمایت پائے گا، جب کہ انکار کرنے والوں پر دہشت گرد وانتہاپسند کا لیبل لگاکر ہر سطح پر ان سے جنگ کی جائے گی۔ غزہ سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اور کالم نگار رضوان اخرس کا اس سوال پر کہنا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کا فیصلہ عرب عوام نہیں، ان کی حکومتوں کا ہے، جو قومی فیصلوں میں اپنی اقوام سے رائے لینے کی عادی ہیں نہ ان کی ترجمانی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان میں سے کئی ممالک میں اسرائیل سے تعلقات کے خلاف احتجاجی مظاہرے نظر آئے۔ اکثر جائزے بھی یہی بتاتے ہیں کہ عرب اقوام اس پیش رفت کو مسترد کرتی ہیں۔ امورِ ایشیا کے مصری ماہر سمیر حسین زعقوق اس معاملے کو بالکل مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ جسارت سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات کا قیام درحقیقت بنی اسرائیل کے آخری عروج سے تعلق رکھتا ہے، جو صہیونی ریاست کے خاتمے پر منتج ہوگا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اس لہر کا اختتام یہود کے مدینہ منورہ پہنچنے پر ہوگا اور پھر وہاں سے ایک بار پھر انہیں مار پڑنا شروع ہوگی۔ ’’معاہدہ ابراہیمی‘‘ کے خوشنما عنوان سے اسلامی ممالک کا یہ اقدام اُمت مسلمہ کے نظریہ خلافت کی طرح یہود کی ایک وسیع مذہبی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کررہا ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیل کو اپنے لیے مواقع بڑھانے، خود کو منوانے اور پُرامید ہونے میں مدد فراہم کرے گا، کیوں کہ علاقائی سطح پر بائیکاٹ کی گھٹن میں اس طرح کے قومی منصوبے یہود کو مطلوب مستقبل ہرگز تشکیل نہیں دے سکتے۔ اس لیے عرب ممالک کا یہود کے لیے اپنی جغرافیائی سرحدیں کھولنے کا مقصد مسلمانوں اور عربوں کی اراضی کے دروازے کھول کر اس قومی صہیونی منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا ہے۔