سعودی عرب اور ایران او آئی سی کی فعالیت میں رکاوٹ ہیں‘ متبادل فور م سے امت مزید تقسیم ہوگی

491

کراچی (رپورٹ/ محمد علی فاروق) سعودی عرب خود کو مسلمانوں کا نمائندہ ملک سمجھتا ہے، عربوں کے زیر قیادت اسلامی تعاون کی تنظیم مکمل طور پر غیر مؤثر ہوگئی ہے، مسلم ممالک کے حکمران اپنے قومی مفادات کے تحت ہی پالیساں بناتے ہیں، اس تمام صورت حال میں اسرئیل بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے، امت کے اندرونی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ امت میں عدم اتحاد و اتفاق کا ہے، کچھ مسلم ممالک استعمار، سامراجی ساہو کاروں سے اربوں ڈالر سالا نہ لے رہے ہیں، امت مسلمہ 2 دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہے اور ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے، امت کے وسائل، نوجوان، اسلحہ، قوت اور طاقت امت مسلمہ ہی کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، امت مسلمہ میں 73 کروڑ عوام ناخواندگی کی زندگی گزار رہے ہوں تو وہاں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں پر کام کرنے کی انتہائی ضرورت ہے، تعلیم کو ہمیشہ پس پر دہ رکھا گیا تاکہ جمہوریت کو کبھی فروغ نہ دیا جاسکے اسی لیے بیشتر اسلامی ممالک میں آج بھی آمریت کا تسلسل جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں لیڈرشپ کا فقدان نظر آتا ہے، او آئی سی ایسے تمام مسائل کو بین الاقوامی سازش قرار دے کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے، مغرب نے ہمارے مقاصد اپنائے اور ہم نے چھوڑ دیے تو ہم پیچھے رہ گئے، اوآئی سی ایک نشستن ‘گفتن و بر خاستن کی مجلس بن چکی ہے، او آئی سی کے چارٹرکو دوبارہ ترتیب دیا جائے اس کے مقاصد کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے اور اس فورم کو ہر ایک کیلیے کھلا رکھنا چاہیے، او آئی سی کے متبادل کے طور پر کسی اور تنظیم کو بنانے کی کوشش سے مسلم دنیا کو نقصان پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط، امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان، سیاسی و بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس اور پیپلز پارٹی کی رہنما ورکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سیدہ شاہدہ رحمانی نے روزنامہ جسارت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبد الباسط نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے اختلافات کی بنا پر او آئی سی ایجنڈے پر عملدرآمد نہ کر سکی ، اوآئی سی پر سعودی عرب کا مکمل کنٹرول معلوم ہوتا ہے،حکمران اپنے قومی مفادات کے تحت ہی پالیساں بنا تے ہیں،اس تمام صورت حال میں اسرئیل بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے،انہوںنے کہا کہ او آئی سی کا کوئی متبادل فورم نہیںہوسکتا ،متبادل فورم سے امت مسلمہ مزید تقسیم ہوگی ‘ مسلمان پہلے ہی تقسیم ہوچکے اب زیادہ تقسیم کے متحمل نہیںہوسکتے ،کے متبادل کے طور پر کسی اور تنظیم کو بنانے کی کوشش سے مسلم دنیا کو نقصان پہنچے گا اور بین الاقوامی دنیا کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مزید تقویت ملے گی۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹری کے بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہے اور کیا کام کرتی ہے ،اس کے 60سے زاید اسلا می ممالک ارکان ہیں ، اسلامی ممالک کے حکمران اس کی نمائندگی کر تے ہیں یہ اسلامی دنیا کا اہم فورم ہے ، امت مسلمہ کے اتحاد ، اتفاق ، امت مسلمہ کے آپس کے اختلافات ، امت مسلمہ کو درپیش مسائل ، چیلنجز ،بالخصوص سائنس ، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے میدان سمیت صحت ،معاشی ترقی اور انفرااسٹرکچرکے میدان اور سفارت کاری میں مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے اور پھر امت مسلمہ کو جو خطر ات درپیش ہیںان بیرونی خطرات سے امت مسلمہ کی حفاظت کرنا ان کا تدارک کرنا اس فورم کے بنا نے کے مقاصد میںشامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوراو آئی سی مذکورہ تمام چیلنجز سے مقابلے کے لیے اہم فورم بن سکتا ہے بلکہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن بد قسمتی سے او آئی سی ابتدائی چند برس کے بعد ہی اپنی افادیت کھو بیٹھی اور ان تمام چیلنجز میں فعال کردار ادا کرتی نظر نہیں آئی ،امت کے اندرونی مسائل میںسب سے بڑا مسئلہ امت کے اتحاد واتفاق کا ہے، اور اس اتحاد واتفاق کا نہ ہونے کی وجہ سے ہی عدم اتفاق وانتشار پیدا ہوا ہے، کچھ مسلم ممالک استعمار ،سامراجی ساہو کا روں سے اربو ںڈالر سالا نہ لے رہے ہیں ، اس طرح کے عدم اتفاق کی وجہ سے امت ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی ہے،امت مسلمہ دو الگ دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہے،اور ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ امت کے وسائل ، نوجوان ، اسلحہ ، قوت اور طاقت امت مسلمہ کے خلاف ہی استعمال ہورہی ہے اور دشمن کے کارخانے امت کے وسائل سے چل رہے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ او آئی سی کو پہلا کام جو کرنا چاہیے تھا وہ انہوںنے نہیں کیا ،جس میں سر فہرست چیلنجز میں تعلیم،سائنس اور ٹیکنا لوجی شامل ہیں ، او آئی سی ہیڈ کوراٹر جدہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق 73کروڑ مسلمان نا خواندہ ہیں جن میںاکثریت خواتین کی بتائی جارہی ہے،ایک امت میں73کروڑ عوام ناخواندگی کی زندگی گزار رہے ہوں تو وہاںتعلیم ،سائنس ،اور ٹیکنا لوجی کے شعبوںپر کام کرنے کی ضرورت ہے ، امت ایک ایسی آماجگاہ بن چکی ہے اور بھوکے اس پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔بین الاقوامی امو ر کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ کوئی بھی بین الاقوامی تنظیم اس وقت تک فعال نہیں ہوسکتی جب تک اس کے کلیدی ارکان بھی متحرک نہ ہوں ، تاکہ وہ تنظیم کے مقاصد کو آگے بڑھائیں ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ او آئی سی کی فعالیت میںانتہائی کمی آچکی ہے ، اس کا ذمے دار کو ئی ایک ملک نہیںہے، میرے خیال میںمسلمان ممالک میںایک صف بندی ہوچکی ہے جو اس کے اراکین عرب ممالک میں واضح نظر آتی ہے جیسے ایران اور عرب ممالک کے درمیان پہلے سے موجود ہیںجبکہ حالیہ دورمیںہمیں ایک نئی تقسیم نظر آرہی ہے،اس سے قبل بھی ہم دیکھ چکے ہیں فلسطین میںدھڑے بندی ہوچکی ہے اور اس وقت مشرق وسطی میں جہا ں جہاںخانہ جنگی چل رہی ہے اس میںاوآئی سی کا کر دار نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توقعات اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان اوآئی سی کے بانی ارکان میںسے ہے،پاکستان کو او آئی سی سے اس بات کی توقع تھی کہ اس پلیٹ فارم سے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے گا ہر ملک اپنے مفادات کے تحت خارجہ پالیسی بنا تا ہے،اور او آئی سی میںپاکستان کا مسئلہ ہندوستان سے، فلسطین کا مسئلہ اسرائیل سے،ترکی یا آذر بائیجا ن کا مسئلہ آرمینا کے ساتھ ہے ان تمام مسائل کو اوآئی سی میںموجود ارکان اپنا مسئلہ نہیںسمجھتے جبکہ او آئی سی کی روح کو سمجھا جائے تو اس میںیہ بات واضح ہے کہ اگر کسی مسلم ملک کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے گی تو اس کا درد تمام ممالک محسوس کریںگے ، اوآئی سی اس طرح کے کسی بھی قسم کے جذبات سے خالی نظر آتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ او آئی سی کی عدم فعالیت میںاس کا متبادل فورم اقوام متحدہ کو کہا جا سکتا ہے،ان تمام مسائل کے تدارک کے لیے اقوام متحدہ کا فورم موجود ہے، لیکن اوآئی سی کے متبادل کو ئی فورم نہیںہوسکتا ۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند ماہ قبل بات کی تھی کہ ہم مسلمان ممالک میںایک فورم کھڑا کر رہے ہیں میںنہیںسمجھتا کہ یہ بات ٹھیک ہے اس طرح مسلمان ممالک مزید تقسیم در تقسیم ہوجائیںگے ۔پیپلز پارٹی کی رہنما و رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سیدہ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ ہمارے علم میں ہے کہ اوآئی سی امت مسلمہ کا سب سے بڑا فورم ہے ، سلطنت عثمانیہ کے بعد اس لیے وجود میں آیا تھا کہ اسلامی ممالک میں انتشار پر قابو پایا جاسکے اور تمام اسلامی ممالک اقتصادی ، تقافتی و علمی طور پر آپس میں یکجا ہوں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیا جا سکے ، ہمارا دین بھی اس ہی کا درس دیتا ہے ،اس فورم کا ایک اولین مقصد بھی تھا کہ امت مسلمہ کی ایک مشترکہ فوج ہو تاکہ ہم اپنی اسلامی تقافتی ،سماجی اقدار کا آزادانہ فروغ دے سکیں ۔ انہوںنے کہا کہ بدقسمتی سے ان مقاصد پر عملد رآمد نہ کیا جاسکا اگر او آئی سی کے مقاصد اور اس کے چارٹر پر عمل کرلیتے تو آج اسلامی دنیا کے یہ حالات ہر گز نہ ہوتے ۔