کراچی (رپورٹ: منیب حسین) عالم اسلام کی نامور ترین اسلام پسند سیاسی ودعوتی جماعت اخوان المسلمون کا ماضی اور حال جہد مسلسل وقربانی سے تعبیر ہے‘ اس عالم گیر تنظیم کا قیام عرب دنیا کے اہم ترین ملک مصر میں ہوا‘ تاہم اس کی سیاسی‘فکری‘دینی‘ دعوتی اور فلاحی سرگرمیوں سے پوری دنیا نے استفادہ کیا‘ مصر سے باہر اس سے منسوب کئی جماعتیں ناصرف مختلف عرب ممالک میں اتحادی حکومتوں کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئیں، بلکہ کئی ریاستوں میں خود بھی برسر اقتدار آئیں اور اپنے طرزِ حکمرانی سے عرب عوام اور عالمی برادری کو بتایاکہ نظریے، خدمت، خیرخواہی اور انتظام کے ساتھ حکومت کس طرح کی جاتی ہے‘ اخوان المسلمون کا قیام پہلی جنگ عظیم میں عالم اسلام کی کمزور اور خلافت عثمانیہ کے بعد 1928ء میں شیخ حسن البنا کے ہاتھوں عمل میں آیا، اور چند ہی برسوں میں یہ ایک جامع فکری ودعوتی تحریک کے ساتھ ایک منظم سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اس کے بعد سے اخوان المسلمون کا بنیادی ہدف مصر اور دیگر عرب ممالک میں اسلامی تعلیمات کے مطابق سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اس جماعت نے مصر میں مسلسل 6 دہائیوں تک پابندیوں، قتل اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ عرب بہار کے نتیجے میں مصر میں فوجی صدر حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوا، تو جون 2012ء کے انتخابات میں اخوان المسلمون نے میدان مارا اور اس کے رہنما ڈاکٹر محمد مرسی 51.73 فیصد ووٹ لے کر ملک کے پہلے منتخب جمہوری صدر بنے۔ تاہم ایک سال بعد ہی فوج نے جنرل عبدالفتاح سیسی کی قیادت میں عالمی اور علاقائی قوتوں کی ایما پر ان کا تختہ الٹ دیا، جس کے ساتھ ہی مصر میں اسلام پسندوں‘سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور سماجی شخصیات کیخلاف تاریخ کی بدترین استیصالی مہم شروع ہوئی، جو آج تک جاری ہے۔ اخوان المسلمون کے رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد سیاسی بنیادوں پر جیلوں میں قید ہیں‘ ان پر جھوٹے مقدمات چل رہے ہیں‘ سیکڑوں لاپتا ہیں اور ہزاروں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس جماعت کو مصر ہی نہیں کئی عرب اور مغربی ممالک میں بلاجواز دہشت گرد قرار دے کر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصر کے سیاسی منظرنامے پر اخوان المسلمون کبھی واپس آسکے گی؟ تاریخ کو دیکھتے ہوئے اس کا جواب دینا کسی کے لیے بھی ممکن ہے، لیکن ہم نے اس کیلیے مصر، عالم عرب اور مغربی دنیا کی مختلف شخصیات سے ان کی رائے لی ہے‘ جو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ یحییٰ سعد ایک مصری ماہر سیاسیات اور کالم نگار ہیں‘ جو اس وقت ترکی کے شہر استنبول میں مقیم ہیں۔ جسارت سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون کی مصر کے سیاسی منظرنامے میں واپسی ایک بدیہی امر ہے، جو ہو کر رہے گی۔ 2013ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں سخت ترین شکنجہ کسے جانے کے باوجود اخوان المسلمون نے سیاسی عمل سے علاحدگی کا اعلان نہیں کیا، بلکہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ انہوں نے اس وقت بھی سیاسی میدان سے دوری اختیار نہیں کررکھی ہے، کیوں کہ وہ مصر میں بحیثیت نمایاں ترین سیاسی گروہ کے آئینی حکومت کا تختہ الٹنے والی سیسی آمریت کے خلاف توانا ترین آواز ہیں۔ حتیٰ کہ سیسی اور اس کے سلامتی کے ادارے وذرائع ابلاغ کو بھی اخوان المسلمون کی کسی بھی وقت واپسی کا دھڑکا لگا رہتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ اس جماعت کی شہرت داغ دار کرنے اور اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کیلیے مختلف وسائل اور اسلوب اختیار کر رہے ہیں، جو سیسی حکومت کے اس خوف کی عکاسی ہے کہ انہیں اخوان المسلمون کی کسی بھی لمحے واپسی کا ڈر ہے۔ یہی سوال جب ہم نے استنبول میں مقیم شامی صحافی اور پاکستان میں برسوں الجزیرہ کے نامہ نگار رہنے والے احمد موفق زیدان سے کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں اخوان کی بطور ایک جماعت مصر میں واپسی سے متعلق پیش گوئی یا اس پر گفتگو آسان نہیں۔ مصر کے اندر اخوان کی تنظیمی ہیئت کی کمزوری، جماعت کے رہنماؤں اور ارکان کی ہجرت ودوردراز علاقوں کو نقل مکانی، آمریت اور اسے حاصل عرب ومغربی تائید کے باوجود اخوان المسلمون مصری معاشرے کی ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جمال ناصر، انور سادات اورحسنی مبارک اس جماعت کی عوام میں جڑیں ختم نہیں کرسکے اور جب حقیقی جمہوریت کا دور آیا، تو اخوان المسلمون کی قوت نہایت خوب ابھر کر سامنے آئی۔ اس لیے اس استعماری وآمرانہ بادل کے چھٹنے کی دیر ہے کہ اخوان واپس لوٹ آئے گی۔ برطانوی صحافی ایوان ریڈلی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی قید سے رہائی کے بعد اسلام قبول کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو مسلمانوں کے لیے وقف کرنے والی ایوان ریڈلی بھی اخوان المسلمون کا مستقبل روشن دیکھ رہی ہیں۔ جسارت سے گفتگو کے دوران اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے بہارِ عرب کو ایک ایسی بڑی تحریک تصور کیا، جو خطے میں قائم ظالم نظاموں کا خاتمہ کر کے ایک عرب انداز کی جمہوریت لے آئی گی، جس میں اسلام پسندی کا رنگ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں اخوان المسلمون ایک مزاحمتی اور آمریت مخالف مہم چلانے والے گروہ سے حکومت کے لیے تیار جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ تیونس میں النہضہ نے خود کو اسی کردار کے لیے تیار پاتے ہوئے اتحادی حکومت بنائی، جب کہ لیبیا میں اسی سوچ کی حامل جماعتیں ایک نئے اسلامی دور کا سورج طلوع ہونے کے لیے پُراعتماد نظر آئیں۔ تاہم یہ عہد خطے پر مسلط آمریتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا، جنہوں نے ان عوامی تحریکوں کو دفن کرنے کا انتظام کیا۔ مصر میں اخوان المسلمون کو ایک اور فوجی آمریت کے ذریعے زیر کر دیا گیا اور جماعت کے ہزاروں ارکان کو گرفتار کرلیا گیا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ جماعت اس وقت بدترین حالات کا سامنا کر رہی ہے اور پورے خطے میں اس کی واپسی بظاہر مشکل نظر آتی ہے، تاہم اس جماعت کو تقویت دینے کے لیے یہ حقیقت کافی ہے کہ معاشرے میں اس کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں، جو اسے دوبارہ ابھرنے کی طاقت فراہم کرتی ہیں۔ آپ کسی نظریے کو ختم نہیں کرسکتے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ ظلم واستبداد کے خلاف ایک نئی مزاحمت کے نتیجے میں سیسی کا اقتدار ضرور ختم ہوگا۔