قانون بنانا حکومت کا کام، عدالتیں عملدرآمد کراتی ہیں،عدالت عظمیٰ

338

اسلام آباد (آن لائن) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون بنانا حکومت کا کام ہے، عدالتیں عملدرآمد کراتی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے3 رکنی بینچ نے خیبر پختون خوا میں سول سرونٹ ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر سے متعلق کیس پر سماعت کی۔سرکاری ملازمین کے وکیل نے کہا
کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کر دی گئی، 25 سال کی سروس پر ریٹائرمنٹ کا قانون ختم کر دیا گیا اور اسمبلی میں کسی کو سنے بغیر اور بنا بحث کیے بل منظور کیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جب روٹی پک چکی تو یہ پوچھنا بے کار ہے کہ آٹا کہاں سے آیا، اگر کسی کو اسمبلی کی کارروائی پر اعتراض ہے تو اسمبلی میں جاکر شکایت کرے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی میں کسی کا مؤقف سننے کا تصور نہیں ہے، جب قانون پر گورنر کے دستخط ہوگئے تو معاملہ ختم ہوگیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چند سول سرونٹس کے تحفظات پر قانون تو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا، صرف وضاحتوں سے قانون چیلنج نہیں ہوتے، قانون بنانا حکومت کا کام ہے عدالتیں اس پر عملدرآمد کرواتی ہیں، قانون آئین کے تحت بنتا ہے رولز آف بزنس سے نہیں۔عدالت عظمیٰنے خیبرپختونخوا ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے خلاف ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ دوبارہ فیصلے کے لیے عدالت عالیہ کو واپس بھجوا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ پشاور ہائیکورٹ قانون کے مطابق کیس کا فیصلہ کرے۔