کشمیر پر کب ، کیسے اور کیوں سودے بازی ہوئی؟ حکمران جواب دیں ، سراج الحق

264

 

اسلام آباد( نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سر ا ج الحق نے کہاہے کہ موجودہ حکومت جنرل گریسی کی پالیسی پر چل رہی ہے ۔ کشمیر پر کب ، کیوں اور کیسے سودے بازی ہوئی ، حکمران قوم کو جواب دیں ۔ گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے کے لیے کشمیر ی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حکمران بھارتی اقدامات پر خاموش جبکہ اپوزیشن کے خلاف دن رات لفظی بمباری کر رہے ہیں ۔ سینیٹ الیکشن سے متعلق جو بھی فیصلہ کرناہے ، پارلیمنٹ کے فورم سے ہونا چاہیے ۔ ادارے اپنی حدود میں رہیں ، انتخابی اصلاحات ہوں توحقیقی قیادت آئے گی اور ملک
ترقی کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے سینیٹ اجلاس سے خطاب اور یوم حق خود ارادیت کشمیرکے موقع پر مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ سینیٹر سراج الحق نے حکومت کی کشمیر پر بھارتی مظالم کے خلاف خاموش رہنے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی کے دور میں جنرل گریسی کی ہی پالیسی چل رہی ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت نے بغیر جنگ کے کشمیر پر پسپائی اختیار کی ہے۔بھارتی درندوں کے ہاتھوں مقبوضہ وادی میں مائوں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عصمت دری ہو رہی ہے ۔ ہزاروں نوجوانوں کو بغیر مقدمات کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیاہے جن کا گزشتہ ڈیڑھ برس سے کچھ اتا پتا نہیں ، آر ایس ایس اوربی جے پی کے غنڈے مقبوضہ علاقوں میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی آباد ی کو اقلیت میں بدلنے کے لیے وادی میں ہندوئوں کی آباد کاری ہو رہی ہے۔مودی کی فاشسٹ حکومت نے مقبوضہ علاقے کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کا جینا دو بھر کردیاہے مگر عالمی برادری کا ضمیر سور ہا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔کب سے کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا جائے لیکن مجال ہے جو وزیراعظم اس طرف متوجہ ہوئے ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے کے فیصلے پر کشمیری قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ،فیصلے نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکمرانوں کی تمام توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف ہے ۔ لوگوں کو دہشت گردی اور جرائم سے محفوظ رکھنے ، اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات کرنے اور عوام کو مہنگائی و بے روزگاری جیسے مصائب سے نجات دلانے کے بجائے ہدف تنقید صرف اپوزیشن ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ الیکشن سے متعلق ہر قسم کے فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں اور اہم فیصلوں کو پارلیمنٹ سے بالاتر کرنے کی روایت ترک ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے ماضی میں بھی اس اہم ترین ادارے کونظر انداز کیا جاتا رہا اور اب بھی یہی سلسلہ جاری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں ۔ سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کے لیے ڈائیلاگ کریں ۔ الیکشن ریفارمز کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ۔ انہوں نے کہاکہ احتساب کے نام پر یک طرفہ تماشا جاری ہے ۔ معیشت کا بیڑا غرق ہوچکاہے اورادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔