گواہی کو شہادت کہتے ہیں سچی گواہی کو شہادت حق اور جھوٹی گواہی کو شہادت زور کہتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی میں دو طرح سے گواہی دیتا ہے۔ ایک تو وہ گواہی ہے جو وہ اپنی زبان اور اپنے قلم کے ذریعے دیتا ہے اس گواہی کو ہم قولی شہادت کہتے ہیں۔ انسان جو بھی نظریہ زندگی رکھتا ہے وہ اپنی زبان و قلم کے ذریعے دنیا کے لوگوں کے سامنے اس کو پیش کرتا ہے اور وہ اس نظریہ زندگی کی شہادت کا علمبردار بن جاتا ہے اور وہ نظریہ اس کی زبان و قلم کے ذریعے سے دنیا کے سامنے شہادت کے طور پر آتا ہے اور اگر گواہی حق ہو تو لوگ اس کو قبول کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے ایک گواہی اور بھی ہے جو وہ اپنے عمل کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے یعنی اپنے نظریہ زندگی کے مطابق عمل کرکے دیتا ہے اس کو عملی شہادت کہتے ہیں دونوں طرح کی شہادت کی اہمیت اپنے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔
یہاں پر شہادت کی وضاحت کے بعد مقصود یہ جائزہ رکھنا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی کیسے دونوں طرح کی گواہی کے علمبردار ہیں اور دنیا کے سامنے ہماری قولی شہادت کیا ہے؟ اور عملی شہادت کیا ہے؟ کیونکہ جائزے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم کس سمت میں سفر کررہے ہیں اور آگے اس سفر کے نتیجے میں منزل مقصود کتنی دور ہے یا ہم راستہ سے بھٹک کر دور کسی اور ہی سمت میں سفر کررہے ہیں۔
قائد اعظم کے فرمان کے مطابق ’’ہم محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہمارا مقصد ایک ایسی تجربہ گاہ کا حصول ہے کہ جس میں ہم اسلام کے سنہرے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کرسکیں‘‘۔ یعنی اسلامی فلاحی ریاست۔۔۔ ہماری دنیا کے سامنے جو حیثیت ہے وہ ایک دین اسلام کے گواہ کی، اور اسلام بلاشبہ ایک نظام حیات ہے جو اپنے اندر تمام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کا بہترین حل دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اس پہلو سے ہماری حیثیت دنیا کے سامنے گواہ کی سی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری قولی وقلمی شہادت یہ ہے۔
اخبار ورسائل دھڑلے سے جھوٹ لکھ رہے ہیں، بازاروں میں جھوٹ اور بدیانتی کا دور دورہ ہے۔ جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے وکالت بڑی مہارت سے کی جاری ہے۔ کوئی شعبہ ایسا بچا نہیں کہ جہاں شہادت زور عروج پر نہ ہو۔ انفرادی سطح پر ایک سبزی ولا۔ موچی اور ایک بہت بڑا کاروباری سوائے آٹے میں مقدار نمک، اس بات کا قائل ہے اور اسی طرح سے کاروبار چلا رہا ہے کہ جھوٹ کے بغیر، سود کے بغیر کاروبار نہیں چل سکتا، کہا جاتا ہے کہ ڈرائیور جس سمت میں گاڑی لے کر جانا چاہے مسافر چارو ناچار اسی سمت سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ صحافت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے ہمارے پاس جو طریقہ صحافت ہے وہ دراصل اسلامی صحافت نہیں بلکہ اسلام کے باغی لوگوں کی طرز پر ہے، ہماری قیادت ہماری انجمنیں ہماری جماعتیں اسی ڈھنگ سے اپنا کام کررہی ہیں۔ جس طرح غیر مسلم قیادت اور سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں، تحریر و تقریر کا انداز بھی وہی ہے جو اسلام بیزار سیاسی لوگوں کا ہے۔
عملی شہادت کا حال بھی اسی طرح کا ہے جس طرح ہماری قولی شہادت، انفرادی زندگی میں تو ہم اسلام کے علمبردار ہیں مگر اس سے بڑا دائرہ ہماری اجتماعی زندگی کا ہے اگر اجتماعی زندگی شہادت حق کے خلاف ہوگی تو انفرادی زندگی میں بھی قوم اسلامی نظریہ زندگی کے گواہی کے دائرے میں سکڑتی چلی جائے گی۔ اور انفرادی دائرے میں بھی ہمارے لیے اپنے قدم پر کھڑا رہنا ممکن نہ رہے گا۔ پوری دنیا کے ان ممالک کی مثال اگر دیکھیں تو آج بیرون دنیا سود کی شرح کم سے کم کررہی ہیں۔ جھوٹ اور بددیانتی کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ہمارا حال ایک ایسی قوم کا سا دنیا کے سامنے ہوگیا ہے کہ جیسے ہم لائق اعتبار نہیں رہے۔ ہم عصائے موسیٰ لیے بغل میں تھر تھر کانپ رہے ہیں۔
سیکولر ازم اور سرمایہ دارنہ جمہوریت یہ دو نظام دنیا میں بڑے طمطراق کے ساتھ آئے اور ایشیاء یورپ اور افریقا کے بیش تر ممالک پر چھا گئے یہ انقلابات کروڑوں انسانوں کے خون سے آئے اور جس طرح انہوں نے دنیا کے ان ممالک کو سرخ کیا اسی طرح ایشیا کو بھی سرخ کردیا ان انقلابات کے مراکز ماسکو اور نیویارک تھے مگر جب ان کا سورج آسمان پر چمک رہا تھا تو اس وقت بھی ایسے مرد درویش تھے جنہوں نے علمی دلیلوں سے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ یہ نظام دنیا میں انسانوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔ مجھے یہ لکھنے میں بالکل باک نہیں ان میں ایک بڑی شخصیت علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی تھی۔ جس زوردار انداز میں سیکولر اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے علمبردار شہادت دے رہے تھے کہ ایک دن ساری دنیا کا نظام انہی دونوں نظاموں کی گرفت میں ہوگا اسی پرزور انداز میں مولانا مودودی نے اسلامی نظام کی گواہی کو دنیا کے سامنے دینے کا فریضہ انجام دیا۔ آپ نے 30 دسمبر 1946 کو پٹھان کوٹ کی چھوٹی سی مسجد میں فرمایا تھا کہ: ’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا، سرمایہ دارانہ جمہوریت واشنگٹن اور نیویارک میں لرزہ براندام ہوگی، مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی‘‘۔
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
آج ہم اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ رہے ہیں سیکولرزم کے سب سے بڑے علمبردار لینن کا مجسمہ ماسکو کے چوک سے گرایا جا چکا ہے۔ شاید کہ نئی نسل کو اپنے دام میں پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ یہ گلے سڑے نظام دنیا کو برباد کرکے اب اپنی موت آپ مر رہے ہیں جو قومیں تاریخ سے اپنا رشتہ اور اپنے سنہرے ماضی سے رشتہ توڑ لے تو پھر اسی طرح سڑکوں پر اپنا تماشا بنانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جس دین کے علمبردار ہیں اس کے سچے گواہ بنیں چند سال میں دینا کا نقشہ تبدیل ہوگا موجودہ شہادت زور کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ دنیا میں اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں جس کے ذریعے ہماری دنیا سنور سکتی ہے وگر نہ دنیا تو خراب ہونی ہی ہے آخرت بھی خطرے سے دوچار ہوگی۔