پنگریو (نمائندہ جسارت) سندھ کے کاشت کاروں نے وفاقی اور سندھ حکومت کی زرعی پالیسی کو مکمل طور پر ناکارہ اور کاشت کاروں و معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اسے رد کردیا ہے اور وفاقی وصوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ باہمی رابطہ کاری کے ذریعے کاشت کار دوست اور ملک کی زرعی معیشت کو مضبوط کرنے والی پالیسی تشکیل دیں اور جنوری کے بعد گندم کی درآمد بند کی جائے۔ یہ مطالبات سندھ آبادگار بورڈ کے اجلاس میں کیے گئے جو سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں عمران بوذدار، صادق علی شاہ، خالد احمد میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، مہتاب لوند اور مراد علی شاہ بکیرائی سمیت مختلف کاشتکاروں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے گندم پھٹی، مرچ، ٹماٹر، پیاز اور دیگر فصلوں کے لیے بنائی جانے والی پالیسیاں ناکارہ اور کسان دشمن ہیں، جس کی وجہ سے ملک کا عام کسان تو متاثر ہوہی رہا ہے مگر اس کا اثر عام باشندوں پر بھی پڑ رہا ہے جبکہ ان پالیسیوں کے باعث ملک کا زرمبادلہ بھی خرچ ہورہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اہم اجناس درآمد کرنا پڑرہی ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ سال 2020ء میں کاشتکاروں سے گندم 35 روپے کلو کے حساب سے خریدی گئی مگر عوام کو آٹا 60 روپے کلو سے بھی زائد قیمت پر دیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کو گندم درآمد بھی کرنا پڑی، جس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوا، یہ سب ناکام زرعی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، ان پالیسیوں کا منفی اثر عام باشندے، کسانوں اور حکومت پر پڑ رہا ہے جبکہ سارا فائدہ مڈل مینوں اور اسمگلر مافیا کو ہورہا ہے۔