جنرل سلیمانی: عالم اسلام میں مزاحمت کی علامت

480

تین جنوری، جنرل سلیمانی پر امریکی حکومت کے بزدلانہ حملے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ امریکی صدر کے حکم سے کی گئی اس دہشت گردی کی واردات میں، خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مرکزی علامت اور کمانڈر کو شہید کردیا گیا تاکہ سب کو معلوم ہو کون اس خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کون اس میں بدامنی کا خواہاں ہے۔ جنرل سلیمانی تو پاسداران انقلاب اسلامی ایران میں اپنے کیرئیر کے آغاز ہی سے شہادت کی تلاش میں تھے، اور آخر میں ان کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی لیکن ان کی شہادت میں مسلم امہ کے لیے دو اہم پیغامات شامل ہیں۔ پہلا یہ کہ، امریکیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے ناجائز مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی ناجائز کام سے باز نہیں آتے۔ دوسرا یہ کہ، مسلم ممالک کے مابین وحدت اور استعمار کے خلاف مزاحمت ہی امت مسلمہ کو اس کی موجود پریشانیوں سے بچانے کا واحد راستہ ہے۔
اگر شام اور عراق جہاں آبادی کی اکثریت بہائیوں کی ہے، میں داعش اور دیگر دہشت گروہوں کے خلاف جنرل سلیمانی کی مزاحمت نہ ہوتی تو آج شاید وہ زندہ ہوتے، لیکن اس صورت میں خطے کے ممالک کو اپنی سرزمین پر امریکا اور اسرائیل کے ان دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنا پڑتا۔ جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد رونما ہونے والے واقعات سے یہ ظاہر ہوا کے امریکا ان کو خطے میں اسرائیلی اثر و رسوخ کی اصل رکاوٹ سمجھتا تھا، لہٰذا اس نے انہیں شہید کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ عالم اسلام میں مزاحمت کے محور کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں صہیونی حکومت کے لیے دراندازی کی راہ ہموارہ ہوسکے۔ جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد، خطے کے کچھ ممالک کی صہیونی حکومت کے ساتھ پوشیدہ اور وسیع تعلقات کی انکشاف کو اسی تناظر میں تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن امریکا کے اس ناجائز اقدام کے خلاف، عراق اور ایران سے لے کر پاکستان تک کے مسلم قوموں کے وسیع پیمانے پر مظاہروں نے یہ ظاہرکیا کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں اسلامی ممالک کی دلچسپی ظاہر کرنے کے امریکی پروپیگنڈے کے باوجود، امریکی اس بار بھی اس سمت میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر، یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل سلیمانی کا خون اس خطے میں امریکا کی غیرقانونی موجودگی کے خاتمے کا آغاز ہے۔
جنرل سلیمانی پر حملے کے خلاف منعقد کیے گئے احتجاجی تقاریب اور مظاہروں میں مختلف ممالک کے لوگوں کی وسیع پیمانے پرشرکت، جو یقینی طور ان کی شہادت کی پہلی برسی پر بھی جاری رہے گی، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہر دل عزیز شہید ان مسلمان نوجوانوں کے لیے ایک نمونہ بن چکے ہیں، جن کے دل عالم اسلام کی عظمت کے لیے دھڑک اٹھا ہے۔ اس واقعے کو آیہ شریفہ ’’ومکرو و مکراللہ واللہ خیر الماکرین‘‘ کی مثال سمجھا جاسکتا ہے جس کے مطابق، ذات باری تعالیٰ کے لطف و کرم سے عالمی استعمار کی جنرل سلیمانی کو مٹانے کی چال خود ان کی طرف لوٹ گئی اور نوجوانوں میں اس عظیم شہید کو سمجھنے اور دلچسپی کو دوگنا کردیا گیا۔ جنرل سلیمانی میں مسلم نوجوانوں کی دلچسپی اور رغبت، حقیقت میں ان کی اسلامی انقلاب ایران کے عالمی استعمار کے خلاف مزاحمت کے پیغام میں دلچسپی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کے جابر، غیرقانونی اور غیرانسانی دباؤ کے خلاف ایران کی عظیم قوم کی مثالی مزاحمت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
عین الاسد میں امریکی اڈے پر میزائل حملے کرتے ہوئے، اسلامی جمہوریہ ایران نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ نہ صرف دباؤ کا مقابلہ کرسکتا ہے، بلکہ طاقت کی اس سطح پر بھی پہنچا ہے جو بروقت دہشت گردی کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی دانش مندانہ سلوک نے ظاہر کیا ہے کہ جنرل سلیمانی اور فخری زادہ کی ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات کا بدلہ لینے میں کوئی جلد بازی نہیں کرتا لیکن اس طرح کے ٹارگٹ کلنگ کے منصوبہ سازوں، حامیوں اور مرتکب افراد سے سختی سے انتقام لیا جائے گا۔ آخر میں، جنرل سلیمانی کی شہادت کی برسی پر تعزیت پیش کرتے ہوئے، پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو ان کی وصیت کا یہ حصہ یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں: ’’اسلام کے دشمنوں کو اجازت نہ دیں تاکہ وہ اپنے دباؤ کے ذریعہ آپ میں تفرقہ ڈال سکیں‘‘۔