مارشل لا کا امکان ہے نہ فوج پی ڈی ایم کے اُکسانے میں آئے گی

451

اسلام آباد (رپورٹ:میاں منیر احمد) پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ حکومت ختم ہوجائے کیونکہ وہ اسے حقیقی جمہوری حکومت تسلیم نہیں کرتی، سیاست میں ریاست کو نہیں گھسیٹنا چاہیے، ملک کی سالمیت کو تمام تر چیزوں پر فوقیت ہونی چاہیے، ملک میں مارشل کا امکان ہے نہ فوج پی ڈی ایم کے اُکسانے پر آئے گی،ریاست ہے تو سیاست بھی ہے، ایک طرف بھارت فالس فلیگ آپریشن کی تیاریاں کر رہا ہے تو دوسری طرف ہمیں اپنے پرانے دوست ممالک سے ناراضی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے، عمران خان کا یہ بیان تبصرے کے قابل نہیں اگر تبصرہ کرناہے تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ چور کی داڑھی میں تنکا، پی ڈی ایم حکومت کو جعلی سمجھتی ہے اسی لیے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی،کبھی نہیں کہا کہ فوج اس حکومت کو ہٹادے اس کا موقف ہے کہ فوج حکومت کی حمایت کر رہی ہے اور حکومت کو فوج کی سپورٹ حاصل ہے، پی ڈی ایم کے بقول وہ یہ چاہتی ہے کہ فوج اپنے آئینی کردار کی جانب چلی جائے اور پی ڈی ایم خود اس حکومت سے نمٹ لے گی، فوج کو اُکسا رہے ہیں اور پاک فوج پر حملے کر رہے ہیں، پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ حکومت پر پریشر بڑھایا جائے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی حکومت آتی ہے اس کے خلاف تحریک شروع کردی جاتی ہے جس سے وہ نہ کام کرسکتی ہے اور نہ قانون سازیِ۔ ان خیالات کا اظہار ملک کی سیاسی، سماجی شخصیات اور تجزیہ کاروں نے جسارت کے اس سوال پر کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ پی ڈی ایم جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت پر فوج کو اکسارہی ہے؟ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر مسلم لیگ(ن) کے رہنما سردار ایاز صادق نے کہا کہ ملک میں آئین کے مطابق ہونے والے منصفانہ، غیر جانب دارانہ اور آزدانہ انتخابات میں عوام کے حقیقی مینڈیٹ کے مطابق ہی کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت سازی کا حق ہے اور حکومت اس وقت تک اقتدار میں رہے گی جب تک اسے پارلیمنٹ اعتماد حاصل رہے گا، پی ڈی ایم نے اپنی حالیہ عوامی جدوجہد میں صرف ایک بات اجاگر کی ہے کہ ملک میں حکومت اس سیاسی جماعت کو ملی ہے جس کے پاس حقیقی مینڈیٹ نہیں ہے اور ہم نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف کارروائی کے لیے فوج کو کبھی دعوت نہیںدی، اپنے سیاسی پروگرام اور منشور کے لیے عوام کی حمایت اور تائید حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے ۔ مسلم لیگ(ج) کے صدر محمد اقبال ڈار نے کہا پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ حکومت ختم ہوجائے کیونکہ وہ اسے حقیقی جمہوری حکومت تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ یہ کبھی نہیں چاہتے کہ فوج کو حکومت ہٹانے کے لیے کہا جائے، پی ڈی ایم کے ایک رہنما احسن اقبال اس بارے میں مکمل وضاحت بھی دے چکے ہیں، پی ڈی ایم کو چاہیے کہ وہ اپنا سیاسی پروگرام جس طرح وہ چاہتی ہے جاری رکھے لیکن عوام کی مشکلات کے حل کے لیے کردار ادا کرے، جس کے لیے ضروری ہے وہ سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کی بحث سے باہر نکل آئے، پی ڈی ایم میں 3بڑی جماعتیں جن میں ن لیگ، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی ہے ان تینوں کی ابھی تک پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسمبلیوں کے حوالے سے متفقہ رائے سامنے نہیں آسکی ہے، لہٖذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اتحاد ابھی خود یکسو نہیں ہے۔ تحریک نوجوانان پاکستان کے چیئرمین اور جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ حمید گل نے کہا کہ سیاست میں ریاست کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ ملک کی سالمیت کو تمام تر چیزوں پر فوقیت ہونی چاہیے، ریاست ہے تو سیاست بھی ہے۔ ایک طرف تو بھارت پاکستان پر فالس فلیگ آپریشن کی تیاریاں کر رہا ہے تو دوسری طرف ہمیں اپنے پرانے دوست ممالک سے ناراضی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کو معاملات کو میڈیا کی زینت بنانے کے بجائے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھ کر حل کرنے چاہیں۔اس سے نہ صرف ہمارے اداروں کا مورال پست ہوتا ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی کمزوری کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔کچھ ذمے دار اور غیر جانبدار افراد کو حکومت، ریاست اور اپوزیشن کے درمیان معاملات بہتر کرنا ہونگے۔سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان نے کہا کہ لاہور کے جلسے کے بعد پی ڈی ایم نے اپنے احتجاج کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا، اب اسلام آباد تک لانگ مارچ ہوگا، اسمبلیوں سے استعفے آخری مرحلے پر دیے جائیں گے ہم نے حکومت کا سیاسی میدان میں سیاسی طریقے کے ساتھ ہی مقابلہ کیا ہے اور کر رہے ہیں ہم حکومت گرانے کے لیے فوج کو نہیں کہہ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما جنوبی پنجاب کے لی سیکرٹری اطلاعات رکن قومی اسمبلی نوابزادہ افتخار احمد خان بابر نے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان تبصرے کے قابل نہیں ہے اگر تبصرہ کرناہے تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا اپنا خوف ہے اسے پی ڈی ایم نے بہت سخت چیلنج دیا ہوا ہے، ہمارے جلسے ہی ہم پر اعتماد کا ثبوت ہے ہمارے چیئرمین بلاول نے اعلان کیا کہ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے یہ صرف وزیر اعظم کے جانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ حکومت عوام کے حقیقی مینڈیٹ کے ساتھ بنے ۔سابق صدر ممنون حسین کے مشیر اور بی بی سی کے تجزیہ کار فاروق عادل نے کہا کہ پی ڈی ایم اس حکومت کو جعلی سمجھتی ہے اور اسی لیے کہہ رہی ہے کہ اس حکومت کے ساتھ گفتگونہیں ہوسکتی اس نے کبھی نہیں کہا کہ فوج اس حکومت کو ہٹادے وہ صرف یہ کہہ رہی اور اس کا موقف ہے کہ فوج اس حکومت کی حمایت کر رہی ہے اور اس کی پشت پر ہے اور حکومت کو فوج کی سپورٹ حاصل ہے پی ڈی ایم کے بقول وہ یہ چاہتی ہے کہ فوج اپنے آئینی کردار کی جانب چلی جائے اور پی ڈی ایم خود اس حکومت سے نمٹ لے گی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ پی ڈی ایم ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے فوج سے کہہ رہی ہے، وزیر اعظم کے اس خیال کی تائید اورحمایت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ایسی کوئی بات پی ڈی ایم کی جانب سے دیکھی گئی ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ دونوں ہی استعمال ہورہے ہیں ہماری فوج قومی اور پروفیشنل ہے جس کی بڑی خدمات ہیں ۔ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے ہرادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ رہا مسئلہ پی ڈی ایم کا وہ اپنی کوپشن چھپانے کے لیے فوج پر حملہ آور بھی ہے اور اسی سے سیف راستہ بھی مانگ رہی ہے۔ اس طرح دوعملی کا شکار ہے اگر فوج ان کی راہ ہموار کر ے تو ٹھیک ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز کے مرکزی فنانس سیکرٹری این محمد رضوی نے کہا کہ حققیت تو یہی ہے کیونکہ ان دونوں کوحکومت کا چسکا لگ چکا جبکہ مولانہ فضل الرحمان کو ان دونوں کو ڈرا دھمکا کر مال بنانے کی عادت ہوگئی ہے اور دونوں کا روز گار بند ہوگیا ہے یہی وجہ کہ وہ فوج کو اُکسا رہے ہیں اور فوج پر حملے کر رہے ہیںلیکن تعریف کرنی چاہیے فوج کی جو انہیںبرداشت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی اے کو پہلے کون بیچتا ہے دونوں کی کوشش ہے کہ پہلے ڈیل ہم سے ہو۔ پاکستان ہاکی کے ہیرو اولمپیئن رائو سیلم ناظم نے کہا ہے پی ڈی ایم حکومت پر پریشر ڈال رہی ہے اور اس کا ٹارگٹ یہی ہے کہ کرپشن کے کیسز نہ کھولے جائیں، اسی لیے فوج کا نام لے کر وہ بات کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں مارشل لا کا امکان نہیں ہے اور نہ اسے عالمی سطح پر کوئی پذیرائی ممکن ہے اسی لیے پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ حکومت پر پریشر بڑھایا جائے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی حکومت آتی ہے اس کے خلاف تحریک شروع کردی جاتی ہے جس سے وہ نہ کام کرسکتی ہے اور نہ قانون سازی، سینیٹ میں اگر اسے اکثریت نہیں ملتی تو وہاں تو قانون سازی ممکن ہی نہیں رہتی۔ میرے خیال میں عام انتخابات کی طرح ہی سینیٹ کے بھی انتخاب ہونے چاہئیں اور قانون سازی کا عمل تیز بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک ہی جماعت کی اکثریت ہونی چاہیے تاکہ وہ قانون سازی کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حکومتوں کے خلاف اپوزیشن تحریک چلاتی ہو، پاکستان میں بھی ہر وزیر اعظم کو اس کی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرے اگر یہی حالت رہے تو ملک کس طرح ترقی کرسکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ض) کے پنجاب کے صدر میاں ساجد حسین انجم نے کہا کہ اپنی اپنی سیاسی بقا کے لیے ان لوگوں نے ملک سے نظریاتی سیاست دفن کردی ہے اور یہ بات درست ہے کہ پی ڈی ایم فوج کو حکومت ختم کرنے کے لیے کہہ رہی ہے۔