۔73 برس سے اسرئیلی مظالم کا شکار نہتے فلسطینی عوام ( آخری حصہ)

311

دنیا کے نقشے پر پانچویں صدی سے بحیرہ روم اور دریائے اُردن کے درمیان موجود علاقہ، مستقل بنیادوں پر فلسطین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر 25 جولائی 2016ء کو گوگل نے فلسطین کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے نیا نقشہ جاری کیا جس میں فلسطین کا وجود سرے سے غائب کرتے ہوئے غزہ اور فلسطین کی حدود کو اسرائیل کا حصہ دکھایا۔ امریکا نےآج تک نہ فلسطین کو بطور ملک تسلیم کیا اور نہ وہاں اپنا سفارتخانہ کھولا۔ امریکی سفارتخانہ صرف اسرائیل میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوگل نے فلسطین کو دنیا کے نقشے سے ہٹا کر اس کو متنازع علاقے کے طور پر دکھایا۔ گوگل کی اس حرکت پر مسلم ممالک میں شدید غم و غصےکے جذبات کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح کے سازشی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے اسرائیل نے ایک نیشنل انفارمیشن ڈاریکٹوریٹ قائم کر رکھا ہے جس کا رابطہ دنیا بھر کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ جونہی اسرائیل کسی علاقے میں حملہ کرتا ہے تو اس کے سفارتکاروں، صحافیوں، کالم نگاروں، بلاگرز اور حامیوں کے ذریعے ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ اسرائیل مظلوم دکھائی دینے لگے۔ مغرب کے تمام بڑےٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا، اسرائیل کے اس نظام کا حصہ ہیں اورسفارتی سطح پر بھی اسرائیل اور امریکا اکھٹے کام کرتے ہیں تاکہ اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد جاری ر ہے۔
دسمبر 2017ء میں امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو دنیا بھر میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اقوام متحدہ میں امریکا کے اس اقدام کے خلاف قرار داد بھی منظور ہوئی۔ دوسری جانب امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی اور اس کے افتتاح کے لیے خاص طور پر 15 مئی کا دن مخصوص کیا گیا، کیونکہ اس دن اسرائیل کے قیام کو 70 برس مکمل ہورہے تھے اور اس تقریب میں شرکت کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ خصوصی طور پر اپنے شوہر جیرڈ کشنر کے ہمراہ اسرائیل پہنچیں تھیں۔ ان کے وہاں پہنچنے سے قبل 14 مئی کو اسرائیلی سرحد سے ملحقہ غزہ پٹی پر 6 ہفتوں سے جاری احتجاج میں شدت آگئی تھی اور ہزاروں فلسطینی پر امن احتجاج کے لیے غزہ پٹی پر موجود تھے۔ اس پر امن احتجاج پر اسرائیلی فوج نے وحشیانہ فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 62 فلسطینی جاں بحق اور 2700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اسرائیلی فوج کی نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ فائرنگ کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا۔ اس کے علاوہ ترکی سمیت دیگر ممالک نے امریکا اور اسرائیل سے اپنے سفیروں کو احتجاجاً واپس بلا لیا جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس معاملے کی آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم امریکی مداخلت پر اس مطالبے کو روک دیا گیا۔ امریکا نے موقف اپنایا کہ اسرائیلی فوج نے اپنے دفاع کے لیے فائرنگ کی تھی۔
2018ء میں اسرائیلی فورسز نے 313 فلسطینیوں کی جان لی جن میں 8 ماہ کے بچے سے لے کر 74 سالہ بزرگ شامل تھے۔ 26اکتوبر 2018ء کو پرامن مظاہرین پر فائرنگ کرکےصہیونی افواج نے کئی افراد کو غزہ اور مغربی کنارے میں شہید کیا اور 100 سے زیادہ افراد کو زخمی کر ڈالا۔ اس کے جواب میں جب حماس نےاسرائیلی علاقے میں چند راکٹ داغے تو صہیونی افواج نے ٹینکوں سے پیش قدمی کی اور جنگی طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر نے 2 گھنٹے سے زیادہ تک غزہ میں متعدد مقامات پر بم برسائے اور کئی عمارتوں کو نقصان پہنچایا جن میں حماس کی جنرل سیکورٹی کا 4 منزلہ ہیڈکوارٹر اور شمالی غزہ میں واقع انڈونیشیائی اسپتال بھی شامل تھا۔ اس پر عالمی عدالت نے اسرائیل کو متنبہ کیا کہ وہ مشرقی بیت المقدس کے نواحی قصبے خان الاحمر کو مسمار کرنے اور وہاں فلسطینی شہریوں کو ہجرت پر مجبور کرنے سے باز آئے لیکن صہیونی فوج اور پولیس نے اس تنبیہ کو بالائے رکھتے ہوئے مسلمان آبادی والے مقامات جیسےجبل المکبر، الخلیل، خان الاحمر وغیرہ میں لوگوں کو گھر وں سے باہر نکال کر بلڈوزرسے ایک ایک گھر کو مسمار کیا۔
اسرائیلی مظالم سے تنگ کچھ فلسطینی نوجوانوں نے اگست 2020ء میں غزہ سے کچھ غبارے ہوا میں چھوڑے جن میں آتشگیر مادہ نصب تھا۔ ان سے جنوبی اسرائیل میں کچھ مقامات آگ کی لپیٹ میں آئے۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں بمباری کرکے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ماہی گیر کشتیوں کے سمندر میں جانے پر بھی پابندی عائد کی اور غزہ کے لیے تجارتی گزر گاہ پر انسانی ہمدردی کے امدادی سامان کو لے جانے سے بھی روک دیا۔ ایندھن کی فراہمی کے بغیر غزہ کا واحد پاور پلانٹ بھی بند ہو گیا جس سے اس علاقے کی 19 لاکھ آبادی صرف 8 گھنٹے فراہم ہونے والی بجلی سے بھی محروم ہو گئی۔
فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی مظالم اب نئی بات نہیں رہی۔ 1948ء سے لے کر آج تک 73 سالوں میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اسرائیلی حکومت نے نہتے فلسطینیوں پر کوئی حملہ نہ کیا ہو یا کسی کی جان نہ لی ہو۔ ہر روز کئی فلسطینی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی ہے۔ آئے دن ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے اور نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو جیلوں میں ڈال کر ان پربدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے اس تشدد سے بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہے۔ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بیت المقدس میں مسلمانوں کی آمد کو روکا جاتا ہے، وہاں پر عبادت کرنے والے مسلمانوں پر اسرائیلی پولیس اور یہودی شرپسند مل کر تشدد کرتے ہیں اور احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
دنیا بھر سے یہودی مسلسل آر ہے ہیں اور اسرائیل انہیں فلسطینیوں کی زمین پر آباد کرتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کا علاقہ مسلسل سکڑتا جا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی کا کل رقبہ 400 مربع کلومیٹر ہے اور اس میں 19 لاکھ فلسطینیوں کو قیدیوں کی طرح رکھا گیا ہے جن میں نصف سے زائد تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ پناہ گاہوں اور کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف کھلےآسمان کے نیچے سائبانوں میں رہنے والے فلسطینی کورونا کی وبا سے جاں بحق ہو رہے ہیں اور دوسری طرف عالمی ادارہ خورک نے لاکھوں افراد کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ علاج کی سہولتیں میسر نہ ہونے سے فلسطین کی کئی اہم شخصیات بھی کورونا سے ہلاک ہوچکی ہیں۔ اس کے ساتھ اسرائیلی مظالم ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ رات، دن فلسطینی بچوں اور عورتوں کے کانوں میں ڈرونز کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ ان لوگوں کو نہ اپنی سرحدوں پر کوئی اختیار ہے اور نہ ماہی گیری کے لیے سمندر تک رسائی حاصل ہے۔ وہ سرنگیں اور سڑکیں بھی تباہ کر دی گئی ہیں جن کے ذریعے مصر اور دوسرے ممالک سے اہلیان غزہ کو کھانے پینے کی اشیا، ادویہ اور ضروریات زندگی بھجوائی جاتی تھیں۔ اسرائیل کھلے عام انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے لیکن عرب و مسلم ممالک کے حکمران خاموش تماشائی ہیں اورعالمی ضمیر سو رہا ہے۔
جتنے امریکی صدور نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن سمجھوتوں کی نام نہاد کوششیں کیں، ان کی حیثیت محض دکھاوے سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ اسرائیل ان میں سے کسی سمجھوتے کے لیے بھی آمادہ نہیں تھا۔ اسرائیل کسی صورت میں فلسطین پر اپنا تسلط ختم کرنا نہیں چاہتا۔ خاص طور پر گولان کی پہاڑیوں پر جو دریائے اُردن کے پانی کا منبع ہے۔امریکا کی طرح اکثر یورپی ممالک بھی اسرائیل کے بارے میں رویہ رکھتے ہوئے درپردہ یہ چاہتے ہیں کہ مغرب میں جو یہودی باقی رہ گئے ہیں وہ بھی اسرائیل جا کر آباد ہو جائیں۔ نیز یورپی ممالک مشرق وسطیٰ کو اپنی نوآبادیات کی طرح ہی اثر و رسوخ میں رکھتے ہوئے توانائی کے ذرائع پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ غزہ کے قریب دریافت ہونے والے قدرتی گیس کے نئے ذخائر کی وجہ سے مغربی ممالک، اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے پہلے ہی سے فلسطینی اتھارٹی کی زمین، پانی، ساحل، سمندر، ہائیڈروکاربن، غرض تمام قدرتی وسائل کو اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے اور بین الاقوامی قوانین کو پیروں تلے روند رہا ہے۔ یہ ظلم کی انتہاہے کہ غاصب صہیونی ریاست تمام حدوں کو پارکرتے ہوئےجبر اور دہشت گردی کے ہر حربے اورہتھکنڈے کو بے آسرا فلسطینیوں پر آزما رہی ہے۔ مگر حقوق انسانی کے نام نہاد علمبرداروں کی زبانیں نہیں کھل رہی ہیں کہ وہ غاصب اسرائیلی ریاست سے پوچھیں کہ اس کے پاس اس ظلم، جارحیت، قتل قتل اوردہشت گردی کا کیا جواز ہے؟