مردم شماری میں کراچی کے ساتھ جو ہوا وہ سب نے دیکھا ، چیف جسٹس

403

 

کراچی(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ جو کچھ مردم شماری میں کراچی کے ساتھ ہواہے سب نے دیکھا ،کراچی کو قبرستان بنادیا، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بناکر پورا شہر تباہ کردیا گیا۔منگل کو عدالت عظمیٰ رجسٹری میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، کمشنر کراچی اور دیگر حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے پوچھا کہ ہمارے حکم پر کتنا عمل درآمد ہوا؟، وزیر اعلیٰ کو بلائیں اور کہیں رپورٹ لے کر آئیں، ڈیڑھ سال پہلے حکم جاری کیا تھا اب تک عمل نہیں ہوا، کیا توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موہٹہ پیلس کے سامنے زمینوں پر کسی نے جعلی کاغذ بنا کر قبضہ کرلیا ہے ، کمشنر صاحب کسی دور میں وہاں بچے کھیلتے تھے جائیں وہ زمین وا گزار کرائیں، شہر کی بلڈنگز اب تک اپنی جگہوں پر ہیں، آپ نے کونسی عمارت گرائی بتائیں،
کھوڑی باغیچہ کا کیا حال ہے، لیاری کا حال آپ نے دیکھا ہے، لیاری اور گارڈن سے پلے گراؤنڈ اور پارک ختم ہوچکے ہیں، باغ ابن قاسم کی کیا پوزیشن ہے؟بحریہ آئیکون کس کی زمین پر بنا ہوا ہے ؟ وہاں ایک بڑی بلڈنگ بنی ہوئی ہے اس کا کیا ہوا؟ وہ پلاٹ کس کا ہے 4000 گز کے پلاٹ پر بلڈنگ کس کی ہے؟اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ وہ ایمنٹی پلاٹ ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جائیں زمین پرقبضہ ختم کراکر کل رپورٹ دیں، آپ کو ان ہی سے لڑنا ہے چھوٹے موٹے پتھارے والوں کو چھوڑیں۔چیف جسٹس نے کڈنی ہل کی زمین واگزار کرانے کے معاملے پر کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل بدھ تک کڈنی ہل زمین کلیئر نہ ہوئی تو جیل بھیج دیں گے ، تجاوزات کا مکمل خاتمہ کرکے رپورٹ دیں۔ عدالت عظمیٰ نے کڈنی ہل پارک کو فوری کلیئر کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پارک کو اصل شکل میں بحال کیا جائے اور31 جون 2021ء تک مکمل کرکے شہریوں کے لیے کھولا جائے۔چیف جسٹس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کو نظر آتا ہے آپ لوگوں نے کراچی کے ساتھ کیا کیا ہے، افسران کی تو موج ہی موج ہے، کیا آپ لوگوں کو کراچی میں معمولی زلزلے کا انتظار ہے، خدانخواستہ ایک زلزلہ آیا تو آدھا شہر ختم ہوجائے گا۔ ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ مر جائیں گے،،اس شہر پر فاتحہ پڑھنا شروع کردیں ، کوئی امریکا ،کوئی لندن اور کینیڈا میں بیٹھا ہے ، آپ بھی کل امریکا چلے جائیں گے ،تباہ کردیں اس شہر کو، حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں، لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دیں، سب کو ماردیں گے ،ابھی سے فاتحہ پڑھ دیں کروڑوں لوگوں پر ،ڈی ایچ اے ایم نائن کی پرمیشن کس نے دی ؟ یہ شہر تو اب پرائیوٹ لوگوں کا ہوگیا، سب نے اپنی مرضی کے علاقے بنالیے ،بحریہ ٹاؤن تو بغیر اجازت کے پورے کا پورا بن گیا ،ان کا کس نے کیا بگاڑا ؟ آپ لوگوں نے غیر قانونی طور پر زمینیں بیچ دیں، غریبوں نے ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا کریں گے بلڈوزر لے کر نکل جائیں جتنے غریب لوگ ہیں سب رْل جائیں گے ، سندھ بلڈنگ کے ایک ایک آدمی کے ساتھ پورا مافیا چلتا ہے۔ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ مجھے حکومت کی سپورٹ ہے کام کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اتنی کمزور سپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کا وجود ہی نہیں ، حکومت ہوتی تو یہ حال ہوتا ؟ کراچی میں گینگ اور مافیاز کام کررہے ہیں ، پورا شہر تجاوزات سے بھرا ہے غیرقانونی عمارتوں کی بھرمار ہے ، سرکاری زمینیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں سارے فارمز بنے ہوئے ہیں۔ایک کمشنر آفس کے علاوہ 20کمشنر آفس اور چل رہے ہیں ،چیف سیکرٹری صاحب آپ کو اچھے لوگ نہیں ملتے ؟ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ہمیں کچھ وقت دے دیں کام کریں گے۔،عدالت کا کہنا تھا کہ کیا وقت دے دیں ڈیڑھ سال ہوگیا ہے ،یہ کوگ اتنے ڈرے ہوے گھبرا? ہوے ہیں ہم سے نہیں کسی اور سے ، وہ تو ایک منٹ میں ان کا ٹرانسفر کردیں گے ۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیر تعلیم سعید غنی، مرتضی وہاب وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، امتیاز شیخ، صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ، مشیر جیل خانہ جات اعجاز جاکھرانی، صوبائی وزیر شہلا رضا عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔دوران سماعت گرین لائن بس سروس کے حوالے سے بات ہوئی تو عدالت نے کہا کہ آپ کے اس کام سے اس شہر میں کتنی پریشانی ہے ؟ روزانہ 50لاکھ لوگ پریشان ہوتے ہیں، شہر کو مشکل میں ڈال دیا ہے ، مزار قائد کے پاس کچھ مت بنائیے گا فلائی اوور وغیرہ کیا بنارہے ہیں ؟ نمائش پر کیا بنارہے ہیں ؟۔سربراہ کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی (کے آئی ڈی سی) نے بتایا کہ تین لائنیز کا جنکشن بن رہا ہے، گرین لائن بسوں کا آرڈر دیا جاچکا ہے مئی میں بسیں آجائیں گی ، سرجانی سے یومیہ 3لاکھ لوگ سفر کریں گے۔جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ ایک دفعہ نارتھ ناظم آباد گئے تباہی مچی ہوئی تھی، اتنی مشکل سے گئے سب تباہ ہوگیا ہے، آپ نے پورا بندر روڈ بھی خراب کردیا ، شہر کے بیچ میں بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا ،انڈر گراؤنڈ بناتے ، اربوں روپے لگا دیے ، مرکزی سڑکیں تباہ کردیں ، دو دو تین تین لینز خراب کردی، سچ بات یہ ہے آپ نے شہر کو تباہ کردیا ہے، اگر کچھ کرنا تھا تو رنگ روڈز بناتے، اس شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت تھی، شاہراہ فیصل پر راشد منہاس والا فلائی اور پورا ٹریفک روک لیتا ہے یہ انجینئرنگ ہے آپ کی؟ آپ کو پانی دینا ہے، گٹر ٹھیک کرنا ہے تو پیسہ باہر سے آئے گا ، تھر میں آر او پلانٹس کا کیا ہوا ؟ سب خراب ہیں 15ارب روپے جھونک دیے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے ریڈ لائن بس کے لیے رفاعی پلاٹ کیسے لے لیا ؟ کوئی پرائیویٹ زمین لیتے کھیل کا میدان کیوں لیا ؟ سب سے خطرناک بات یہ ہے کابینہ کورفاعی پلاٹس کنورٹ کرنے کا اختیارہے اور وہ کنورژن (حیثیت تبدیل) کررہی ہے۔وکیل نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ائر پورٹ کے پاس رفاعی پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ کردی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شکر کریں سندھ حکومت نے ائر پورٹ کسی کو الاٹ نہیں کردیا ، یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے کہا کہ مسٹر سی ایم ہم نے مئی 2019ء میں حکم دیا تھا کیا ہوا اس کا؟۔ مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کررہے ہیں معذرت چاہتا ہوں اگر درست رپورٹ پیش نہیں کرسکے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی معذرت کی ضرورت نہیں ہے ہمیں حکم پر عمل در آمد کی رپورٹ دیں ، سارا حکم نامہ ابھی پڑھ کر سنایا گیا بتائیں کچھ بھی عمل نہیں ہوا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ میں معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا کہ کچھ نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا ہے ، ہمیں کوئی ایک چیز بتادیں کراچی کی بہتری اور اصل شکل میں بحالی کے لیے کیا قدم اٹھایا ؟ مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ شہید ملت سے طارق روڈ تک نئی سیوریج لائنیں ، یونیورسٹی روڈ تعمیر کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے شہری تو گاؤں میں رہتے ہیں سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا ، نہ سڑکیں ہیں، نہ پانی، نہ پارک، نہ میدان ،کچھ بھی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ نے درخواست کی کہ کچھ مہلت مل جائے تو عمل درآمد رپورٹ پیش کردیں گے۔ عدالت نے حکم پر عمل درآمد کرکے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے ناصر شاہ سے کہا کہ آپ کے حوالے سے خبر لگی ہے بلڈنگز بنانے کی اجازت دے دی، شہر میں کہاں جگہ ہے کو نئی عمارتیں بنیں گی ؟ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کسی کو غیرقانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے مکمل بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری ریلوے سے کہا کہ سندھ حکومت سے بات کریں اور کراچی سرکلر ریلوے 100 فیصد چلائیں۔ عدالت نے ریلوے کی زمینوں پر قائم قبضے ختم کرانے اور تمام زمینیں واگزار کرانے کا بڑا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ریلوے خود آپریشن کرے اور تمام اراضی واگزار کرائے، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ آپریشن میں مدد کریں اور سیکورٹی دیں۔ چیف جسٹس نے ریلوے کی لیز پر دی گئی اراضی بھی خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پیٹرول پمپ کیسے بن رہے ہیں، ریلوے زمینوں پر کون بنا رہا ہے، یہ قبضے ویسے ہی تو نہیں ہو گئے، آپ کے افسران ہی تو یہ سب کچھ کرتے رہے ، اب تو ریلوے زمین پر مزار تک بنا لیے گئے، حیات ریجنسی اتنی قیمتی زمین تھی ریلوے نے اونے پونے بیچ دی۔عدالت نے حیات ریجنسی کی زمین کو ریلوے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک ماہ میں حیات ریجنسی کی زمین سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے گیلانی اسٹیشن کے قریب ریلوے زمین پر تجوری ہائٹس کی تعمیر روکنے کا حکم بھی دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے جون 2021ء تک گرین لائن بس چلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کے آئی ڈی سی ایل ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے۔