لمحہ فکریہ

113

دنیا کی 40 اور ملک کی35 فی صد آبادی محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے ملک کے وفاقی و صوبائی سرکاری محکموں میں تین دہائی سے زائد عرصے سے یعنی 35 سالوں سے باالخصوص ہنرمند ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین دن رات کی محنت و مشقت سے ملکی معیشت کا پہیہ چلا کر اپنی روزی روٹی کے لیے کوشاں ہیں،مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ صلہ محنت تو دور کی بات سالانہ بونس، سالانہ انکریمینٹس، ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے ورکرز ویلفیئر کی اسکیموں جس میں تعلیمی وظائف،صحت،خصوصی بہبود،فنی تربیت، اسکالر شپ، ڈیتھ گرانٹ و جہیز گرانٹ، ہائوسنگ سیکٹر وغیرہ کی مراعات سے بھی محروم ہیں۔ ہنر مند ملازمین ہوںیا غیر ہنر مند، میٹرک پاس ہو یا ڈپلومہ، گریجویٹ ہو یا ماسٹر ڈگری ہولڈر، ان تمام کو سرکاری اداروں میں ایک ہی لاٹھی سے ہانکہ جاتا ہے۔ یعنی کم سے کم اجرت سے بھی کم اجرت پر کام لیا جاتا ہے۔ جو ملازمین اپنی گولڈن ایج کا پورا حصہ، ادارے کے لیے وقف کرتے ہیںاو ر بعد میں ادارہ انہیں اون نہ کرے، کتنی انتہائی دکھ کی بات ہے۔اتنے لمبے عرصے سے یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں،لیکن مستقلی بند۔
بھرتی کا Appointment Letter ملازمین کو دینا وہ بھی بند۔ کم سے کم کنٹریکٹ پر ہی رکھا جائے وہ بھی بند۔
ہنرمند ملازمین کو قانون کے مطابق اجرت دی جائے وہ بھی بند۔ کاسٹ آف لیونگ الائونس پے اسکیل سے الگ کر کے دیا جائے وہ بھی بند۔
عرصے دراز سے ملازمین کوبونس/ گریجوئٹی دی جائے وہ بھی بند۔ اداروں میں ریفرینڈم میںووٹ کاسٹ کرنا وہ بھی بند۔
انجمن سازی بنانے کا حق وہ بھی بند۔ یونیفارم، شوز، ملک پیک وغیرہ وہ بھی بند۔
حج عمرہ کی قرعہ اندازی میں شامل ہونا وہ بھی بند۔ ڈیلی ویجز کے انتقال پر انشورنس وہ بھی بند۔
بڑھاپے میں پنشن EOBI /علاج معالجے کے لیے سیسی میں رجسٹریشن وہ بھی بند۔ سیسی میں علاج واسطے جانے کے لیے آفیشل چھٹی وہ بھی بند۔
89 دنوں کے دوران غمی وخوشی،حادثاتی یا اتفاقی آٹھ سے زائد چھٹیاں وہ بھی بند۔ 60 سال کا ہوجائے تو ادارے میں داخلہ وہ بھی بند۔
اس کے آگے اگر بڑھو گے تو ملازم کے لیے ادارے کا گیٹ بند۔
ادارے کے ملازمین کے لئے پالیسی وضع کرنا اور آئین و قانون کے مطابق سہولیات میسر کرنا، یہ ادارے کے اندر قائم شعبہ انسانی وسائل کی ذمے داری میں شامل ہوتا ہے۔اس کے لئے شعبہ کے سربراہ کو ان کی ذمیواریوں اور اغراض و مقاصدکا علم ہونا ضروری ہے۔اگر اس اہم سیٹ پر ناک،کان اور گلے کے بڑے ماہر حکیم صاحب کو بٹھائیں گے،تو ان کو نہ تو ملازمین کے پسینے کی خوشبو محسوس ہوگی اور نہ ہی ان تک ملازمین کی آواز پہنچے گی، الٹہ وہ ملازمین کے گلے میں ہڈی ڈال دے گا۔ ویسے حکیم صاحب دے بھی کیا سکتا ہے ماسوائے سفوف یا پھکی کے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان نچلے گریڈز کے ملازمین کے ساتھ نا انصافی یا ناروا سلوک معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والے وہ آفیسرز ہوتے ہیں، جو ملکی یا غیر ملکی اعلیٰ یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے والے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ وہ آئین اور قانون میں دی گئی اپنی تمام ترسروس کی سہولیات تو لیتے ہیں،مگر وہی سہولیات جو ان کے دائرہ اختیار میں بھی ہوتی ہیں، مگر ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں۔موجودہ حالات و کمر توڑ مہنگائی کے ساتھ ساتھ ان افسران کے رویوں میں بے حسی کا اضافہ، یہ کہاں جا کر رکیں گے۔۔۔؟