کراچی ( تجزیہ: محمد انور ) ایسا لگتا ہے کہ “عزم عالیشان نیا پاکستان” کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت صرف تقریباً ڈھائی سال کی حکمرانی میں شدید ذہنی کوفت کا شکار نظر آرہے ہیں ان کے سامنے ملک کی مجموعی صورتحال بہتر کرنے کےساتھ اب فوج کو اپنی حکمرانی سے مطمئن کرنا بڑے چیلنج ہیں، ذہنی دباؤ کے نتیجے میں انہیں یہ بھی طے کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ کس تقریب میں کیا گفتگو کی جائے اور کیا نیا وعدہ کیا جائے۔ گزشتہ روز چکوال میں یونیورسٹی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے تعلیم سے زیادہ حکومت کی مخالف جماعتوں کے کردار کا ذکر کیا جس یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ اپوزیشن کی سرگرمیوں خصوصاً فوج کے خلاف بیانات سے وزیراعظم کی ذہنی کیفیت واضح ہو رہی ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے ہفتے کو بھی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “پاکستان کی حزب اختلاف آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف کو ہدف بنا رہی ہے، اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں، کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی تو آپ نے نہ ثبوت دیے نہ کسی فورم پر گئے اور پاکستانی فوج پر حملہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ ایک سلیکٹڈ حکومت لے کر آئے ہیں” ۔وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ ساری قوم جانتی ہے کہ30 سال سے جو ان کے لیڈر ہیں انہوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کی باتیں اپنی جگہ مگر پوری قوم اب یہ محسوس کر رہی ہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہے بلکہ اس دور حکومت میں خاص وعام دونوں ہی پریشان اور غیر یقینی کی صورتحال میں نظر آتے ہیں۔ وزیرِاعظم نے چکوال کی تقریب میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کاعندیہ دے کر عوام کو مزید پریشان کر دیا ہے۔