دائرے… تعلیم و تربیت کے

701

جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اْسی وقت سے اس کی تعلیم تربیت کا آغاز ہوتا ہے گویا ماں کی گود اس کی پہلی درس گاہ قرار پاتی ہے پھر اس کو اپنے باپ کی آغوش سے شناسائی ہوتی ہے اسی طرح یہ دائرہ بڑھتا ہے اس کے دادا دادی، نانا نانی، اور دیگر قریبی خاندان کے لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ماں سے اس کی زبان سیکھتا ہے، لہجہ سیکھتا ہے اور اس طرح یہ اس کی مادری زبان بن جاتی ہے جو اس کی موت تک اس کے ساتھ رہتی ہے چونکہ بچہ سادے کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اس پر اس کی ماں تعلیم و تربیت کے حوالے سے جو تحریر کرتی ہے وہ تحریر بعد میں اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ وہ پتھر کی لکیر سے زیادہ مستحکم ہوجاتی ہے بچہ اپنی ماں کی خوشبو کو پہچاننے لگتا ہے اس کے لمس کو محسوس کرنے لگتا ہے، وہ اپنے باپ کے چہرے اور اس پر جذبات کی لکیروں کو جاننے لگتا ہے۔ یہ پہلا دائرہ اتنا اہم ہوتا ہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا حصّہ یہاں مکمل ہوجاتا ہے یہیں دین، زبان اور اخلاقی قدریں بچہ سیکھتا ہے۔ ایک ایسی قوم تیار کرنا ہو جو ایماندار، دیانت دار اور بہادر ہو تو لازمی ہے کہ اس کے تیاری کے لیے پہلی اینٹ، اچھی مائیں تیار کرنا ہے۔ اس بات کی دلیل کے طور پر تو بہت سارے واقعات تاریخ کے صفحات کا حصّہ ہیں جن میں سے ایک واقعے سے بات واضح ہوجائے گی عمر بن عبدالعزیزؒ جن کا دورِ خلافت تو زیادہ طویل نہ تھا مگر ا نہوں نے جو کارنامے انجام دیے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
سیدنا عمرؓ رعایا کی خبر گیری کے لیے معمول کے گشت پر تھے رات کا بیش تر حصّہ گزر چکا تھا کہ ایک گھر سے دوعورتوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھی ایک کہہ رہی تھی بیٹی دودھ میں پانی ملادے۔۔۔ بیٹی: نہیں اماں نہیں۔ ماں: بیٹی تھوڑا سا پانی ملادے کون سا عمر تجھے دیکھ رہا ہے۔ بیٹی: اماں عمر تو نہیں دیکھ رہا ہے عمر کا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ اتنی بات سن کر سیدنا عمرؓ اس گھر کے دروازے پر نشان لگا کر واپس ہو لیے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے اپنے بیٹوں کو یہ واقعہ سنایا اور اپنے بیٹے عاصم کا نکاح اس لڑکی کے ساتھ کردیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس گود میں عمر بن عبدالعزیزؒ جیسا عظیم مومن حکمران اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کررہا تھا وہ فاطمہ یعنی جناب عاصم کی زوجہ تھیں اور وہی خاتون تھیں جو دودھ میں پانی ملانے سے انکارکررہی تھیں۔ آج اپنے تمام تر شیطانی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ہتھیاروں سے لیس مغرب نے اسی پہلے دائرے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مائیں تیار ہو رہی ہیں جن کی آئیڈیل ہالی وڈ اور بالی ود کی اداکارائیں ہیں۔ ان سے سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کا دامن چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اس پہلے دائرے کی حفاظت کریں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کو اپنا آئیڈیل سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کو بنانے کی ترغیب دیں۔
دوسرا دائرہ جب بچہ کتاب و قلم تھامے مدارس کا رخ کرتا ہے اس دائرے کی بھی اہمیت کم نہیں ہے مگر درجہ کے اعتبار سے اس کا دوسرا درجہ ہے۔ جہاں اس کی ملاقات اساتذہ اور ایک نئے تدریسی ماحول سے ہوتی ہے یہاں بھی بچّوں کے مختلف قسم کے رویوں کا اظہار ان کے پہلے دائرے کی تعلیم و تربیت کا اظہار ہوتا ہے مثلاً بہت سارے بچے بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں گالیاں تک ایک دوسرے کو دیتے ہیں یہ بچے جھوٹ اور گالیاں سیکھ کر دنیا میں نہیں آتے بلکہ اپنے گھر سے سیکھتے ہیں دوسری طرف کچھ بچّے سچ بولنے کی عادی ہوتے ہیں اچھی گفتگو کے طور طریقے سے آگا ہ ہوتے ہیں یہ بھی ماں کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس دائرے میں ریاست بھی بچے کی تعلیم و تربیت میں شامل ہوجاتی ہے مثلاً وہاں کا ایک تعلیمی نصاب ہوتا ہے اور اسی کے مطابق بچّوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں ریاست کا کردار ہی تو تھا کہ جس نے صفہ کے چبوترے سے فارغ التحصیل طلبہ کو دنیا کے سامنے امام کی شکل میں بہترین قیادت، بہترین اساتذہ، بہترین سیاست دان، بہترین سائنس دان اور دانشور دیے جس کی نظیر دنیا آج تک پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اس دائرے میں خرابی کی ذمے دار بھی ریاست ہوتی جس کا نتیجہ آج کے کرپٹ، بدکردار عالمی اور پاکستانی حکمران طبقہ ہے یہ طبقہ بھی ایسا نہیں ہے کہ یونہی آگیا بلکہ یہ ہاورڈ یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی، کیلی فورنیا اور کیمبرج سے اور کسی درجے میں ہماری جامعات سے آیا ہے۔ اس دائرے کی بہتری اور اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لیے انفرادی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے نظام کے تبدیلی ضروری ہے۔ ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی ہوگی، یہ ہماری اجتماعی ذمے داری ہے کہ اس دائرے کو درست رکھنے کی کوشش کریں۔
تیسرا دائرہ یہ پورا معاشرہ ہے جو گلی سے لے کر پورا وہ ماحول اور اس میں موجود افراد ہیں جن کے درمیان رہتے ہوئے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور اس کے اثرات اس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا قبائلی معاشرہ ہمارے شہری معاشرے سے جدا ہے قبائلی معاشرہ روایات اور اقدار کا پابند ہوتا ہے مگر شہری معاشرہ اس طرح سے پابند نہیں ہوتا بچّہ جب ماں کی گود سے اتر کر درس گاہ جاتا ہے اور اس کے بعد وہ گھر سے باہر کھیلنے کے لیے نکلتا ہے تو اب یہ معاشرے کی گود میں تعلیم و تربیت کی منازل طے کرتا ہے۔ جہاں پارک ہیں میدان ہیں بازار ہیں ہر طرح کے بچّے اور لوگ اس کے ارد گرد موجود ہیں جو اس کو لمحہ لمحہ کچھ نہ کچھ سکھا رہے ہوتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں محبت احترام موجود ہو ایک انسان دوسرے سے انسان کسی طرح کا خطرہ محسوس نہ کرے، جہاں ایک دوسرے کی مدد کرنا کلچر کا حصّہ ہو، لیکن جب ان تمام خوبیوں کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش ریاستی سطح پر کی جائے تو بھی یہ پورے معاشرے کے ان لوگوں کی ذمے دار بنتی ہے کہ وہ اس کوشش کے سامنے سدّراہ بنے اور اجتماعی کوششوں سے معاشرے کو درپیش خطرات سے بچانے کی کوشش کریں اور اس کو اپنا فرض جانے کیونکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے نیک کاموں کا حکم کیا کرو، اور برے کاموں سے روکا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب نازل کرے، پھر تم اس سے (عذاب دور کرنے کی) دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔ (ترمذی)