معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ برائی کے حقیقی سبب پر غور کیا جائے اور اس کے مطابق اصلاح کی مناسب حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ تمام برائیوں کے لیے ایک ہی حکمت عملی یا ایک ہی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی۔ ذیل کی سطور میں ہم معاشرتی خرابیوں کے چند اہم اسباب بیان کریں گے۔ بعض خرابیوں میں ان میں سے ایک سے زیادہ اسباب بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ہر سبب اصلاح کی ایک جداگانہ حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
غلط عقیدے اور تصورات:
کسی نامناسب معاشرتی رویے کا پہلا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں غلط سوچ گھر کر گئی ہو۔ جس کے نتیجے میں مصلح جس چیز کو برائی سمجھ رہا ہے، معاشرہ اس کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتا ہو۔ مغربی معاشرے جنسی اباحیت، عریانی، اور ہم جنسی وغیرہ کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتے بلکہ انھیں انسانی آزادی ( human freedom) کا جز سمجھتے ہیں، جو ان کے نزدیک ایک مثبت قدر ہے، اس لیے یہ برائیاں وہاں عام ہیں۔ اگر ان برائیوں کی اصلاح درکار ہو تو پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان کی سوچ بدلی جائے اور یہ یقین پیدا کیا جائے کہ یہ برائی ہے۔
ہمارے ملک میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل کی بہت سی اصلاحی تحریکات (مسلم معاشرے میں اٹھنے والی بھی اور غیر مسلم معاشرے میں برپا ہونے والی بھی) کا نشانہ ایسی ہی برائیاں تھیں۔ ہندو سماج میں چھوت چھات ایک سماجی قدر تھی۔ معاشرہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے نظریے کا قائل تھا۔ اسی طرح بیوہ کی شادی ناپسندیدہ تھی۔ ستی کو ایک پسندیدہ عمل سمجھا جاتا تھا۔ ہندو سماج کے مصلحین نے اس سوچ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ آریہ سماج، برہمو سماج، امبیڈکر، پھلے، گاندھی وغیرہ نے ان غلط تصورات کی اصلاح کی منصوبہ بند کوششیں کیں۔
مسلمانوں میں اصلاح کی سب سے کامیاب کوشش وہ تھی جس کا بیڑا اس زمانے کے علما نے اٹھایا تھا اور جس کا ہدف بدعات و خرافات تھا۔ معاشرہ قبر پرستی اور بدعات و خرافات کو دین کا جز سمجھتا تھا۔ علما نے اس غلط تصور کی اصلاح کی کوششیں کیں اور اس محاذ پر قابل قدر کامیابی حاصل کی۔ آج امت کا بڑا حصہ خرافات سے دور ہے۔ اسی طرح جدید تعلیم کو ایک برائی سمجھا جاتا تھا۔ سرسید اور ان کے دیگر ساتھیوں نے جدید تعلیم کی تحریک چلائی اور ان کو اس محاذ پر بھی قابل لحاظ کامیابی ملی۔
چونکہ ان ساری برائیوں کا اصل سبب جہالت، غلط تصورات اور غلط عقیدے تھے اس لیے ان کو دور کرنے کے لیے صحیح معلومات عام کرنے اور عوام میں بیداری لانے کے طریقے اختیار کیے گئے۔ مضامین اور کتابوں کی اشاعت، جلسوں اور تقریروں کے ذریعے سے عوام میں صحیح معلومات اور صحیح سوچ عام کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج بھی وہ برائیاں جو معلومات کی کمی کی وجہ سے، یا غلط سوچ اور عقیدے کی وجہ سے مسلمانوں میں عام ہیں، ان کے علاج میں جلسوں اور تقریروں کا طریقہ مفید ہوسکتا ہے۔
ایسی برائیوں کی مثالوں میں طلاق کا بدعی طریقہ، وراثت کی عدم تقسیم، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، بیویوں اور دیگر خواتین کی حق تلفی، وغیرہ برائیاں شامل ہیں۔ یہ سب وہ برائیاں ہیں جن کے رواج کا ایک اہم سبب معلومات کی کمی یا غلط تصورات کا عام ہونا ہے۔ اس لیے صحیح معلومات کی ترویج سے ان پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مہمات، جلسوں اور پروگراموں، تقاریر و مواعظ اور پیغام کی ترسیل کے دیگر ذرائع کو استعمال کرکے ان کے تعلق سے بیداری لائی جائے۔
معلومات کی ترویج واشاعت کے لیے بھی دور جدید میں بہت سے ترقی یافتہ اور زیادہ موثر طریقے موجود ہیں۔ ثقافتی ذرائع، گیت اور نغمے، ڈرامے اور فلمیں وغیرہ ذرائع کا ابھی بھی مسلم معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت کم استعمال ہوپاتا ہے۔ عوام کو کوئی بات سمجھانے کے لیے سب سے موثر زبان کلچر کی زبان ہوتی ہے۔ اسی طرح اب سوشل میڈیا کے ذرائع خصوصاً سوشل میڈیا پر پھیلائے جارہے ویڈیو، کامیڈی وغیرہ معلومات کی ترسیل اور سوچ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ مصلحین کو یہ ذرائع بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
لیکن اب مسلم معاشرے میں بہت کم برائیاں ایسی ہیں جن کے چلن کا اصل سبب معلومات کی یا بیداری کی کمی ہے۔ اکثر برائیاں وہ ہیں، جن کا برا ہونا سب جانتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ رائج ہیں۔ اْن کے ازالے کے لیے کچھ اور تدابیر درکار ہیں۔
روایات: برائی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ برائی یا غلط رویے کو مستحکم روایت(social norm) کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ معاشرہ اپنی ایسی غلط روایتوں کو بھی پوری قوت سے تھامے رکھتا ہے اور ان روایات کو بدلنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ بہت سی برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے تعلق سے معاشرے میں کسی کو ان کے برائی ہونے پر کوئی شبہہ نہیں ہوتا۔ لیکن روایت کی گہری جڑیں تبدیلی کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں۔
روایتیں کیسے بنتی ہیں؟ اس پر بھی محققین نے کافی کام کیا ہے۔ بعض روایتیں حکومتوں کے قوانین بناتے ہیں، بعض کسی زمانے کی مخصوص تمدنی ضرورتوں کے پیش نظر رواج پاتی ہیں اور پھر سماج میں گہری جگہ بنالیتی ہیں۔ لیکن اکثر روایتیں سماج کے بااثر افراد اور خاندانوں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طور طریقے لوگوں کے ذہنوں پر بچپن سے نقش ہوجاتے ہیں اور ذہنی ماڈل ( mental models) بنادیتے ہیں۔ لوگ ان طریقوں کو ناگزیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک عام آدمی ان طریقوں کی اتباع میں تہذیب، شائستگی، خوشی و طمانیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ سماج میں لوگ ایک دوسرے سے ان طریقوں کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ گہری روایت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی روایت کو نہ اپنانا چاہے تو اسے بہت سے عزیزوں اور پورے سماج کی توقعات کو توڑ کر ان کی دل شکنی کا سبب بننا پڑتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے اس لیے کمزور لوگ، غلط روایت کو غلط سمجھنے کے باوجود، اس کو اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں اور ایسی غلط روایتیں چاہ کر بھی ختم نہیں ہوپاتی ہیں۔
اس کی سب سے نمایاں مثال شادی بیاہ کے رسوم، تکلفات، جہیز اور جوڑے گھوڑے کے چلن وغیرہ ہیں۔ یہ شادی بیاہ سے جڑی سماجی روایات ہیں۔ آج ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ یہ غلط رواج ہیں۔ اس لیے تقریر کرکے انھیں غلط کہنے سے لوگوں کی سوچ اور علم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یقیناً بار بار ان برائیوں کی شناعت بیان کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور اس کے لاشعور میں ان برائیوں سے نفرت جاگزیں ہوسکے، لیکن صرف تقریر وتذکیر یا ان کاموں کے برے ہونے سے آگاہی، اس طرح کی برائیوں کے خاتمے کے لیے کافی نہیں ہے۔