حکومت اور اپوزیشن کے رویے سے بحران بڑھ رہا ہے‘ سراج الحق

580

لاہور ( نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ ملک سیاسی دھند کی لپیٹ میں ہے ‘ سیاسی جماعتوں نے گفت و شنید کا آغاز نہ کیا تو عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا۔ داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں استحکام اور معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ ملکی وسائل کا رخ عوامی مسائل کے حل کی جانب موڑنا ہوگا ۔ ان خیالات کا ا ظہار انہوں نے آصف لقمان قاضی کے ڈائریکٹر امور خارجہ کی تعیناتی کے بعد قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے منصورہ میں ہونے والے اجلاس اور بعد میں کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق ڈائریکٹر امور خارجہ عبدالغفار عزیزؒ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ سینیٹر سراج الحق نے اجلاس کے شرکا کو ہدایت کی کہ جماعت اسلامی کے شعبہ امور خارجہ کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے بھر پور کوششیں جاری رہنی چاہییں اور اسلامو فوبیا کے دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے رجحانات کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پائیدار پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ سینیٹر سراج الحق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن اتحاد کی جانب سے غیر سنجیدہ رویہ اپنا نے کی وجہ سے ملک آئے روز سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ موسمی دھند کے علاوہ ملک کو سیاسی دھند نے بھی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے حالات کی بہتری اور عوامی مسائل کے حل کے لیے گفت وشنید کا آغاز نہ کیا تو عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا جس کا واضح اثر خارجہ پالیسی اور معیشت پر بھی پڑے گا جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی محرومیوں کو دور کیا جائے اور وہاں کے لوگوں کو ترقی کے سفر میں شامل کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے اور عوام کی آواز کو طاقت سے دبانے ان پر غدار کا لیبل لگانے کے بجائے ان کی آواز سنی جانی چاہیے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کو امت مسلمہ کی سربراہی کا فریضہ انجام دینا چاہیے تھا لیکن گزشتہ 73 سال سے اسے عدم استحکام کا شکار کیا گیا۔ معیشت برباد ہوگئی۔ غیر ملکی اداروں کے اشاروں پر داخلہ اور خارجہ پالیسیاں تشکیل دی جارہی ہیں اور ملکی خود مختاری کو گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ ہماری کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا وہ بازار گرم کر رکھا ہے جس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ پی ٹی آئی حکومت عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑنے میں فلاپ ہوگئی۔ افغان صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ امریکا فوری طور پر افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹے اور وہا ں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے مسلمانوں کی دنیا بھر میں کسمپرسی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کشمیر، فلسطین، برما کے مظلوم مسلمانوں کی آواز پر عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اس امر کا اظہار ہے کہ خون مسلم ارزاں ہے۔ وقت آگیاہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم کو متحرک کیا جائے اور اتحاد امت کے لیے کاوشیں تیز کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات پیچیدہ ہونے کی وجہ سے عالم اسلام مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ مسلم دنیا میں رنگ ونسل اور مسالکوں کی بنیاد پر تقسیم سے دشمن کے لیے راستے کھلتے ہیں۔ آپس کے اختلافات کی وجہ سے مسلم دنیا معاشی اور دفاعی لحاظ سے بے حد کمزور ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی پونے 2 ارب ہونے کے باوجود انہیں سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت حاصل نہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلمان ممالک سے اپیل کی کہ اپنے فیصلہ پر نظرثانی کریں کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اپنے شاندار ماضی سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے ۔