نومبر کی 19 تاریخ کو برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اچانک برطانیہ کے دفاعی بجٹ میں 12 ارب 50 کروڑ ڈالر کے اضافہ کا اعلان کیا ہے۔ ان کے اس وقت اس اعلان پر سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں نے سخت تعجب کا اظہار کیا ہے جب کہ ملک کورونا وائرس کی وبا کا سامنا کر رہا ہے جس نے ملک کی معیشت تباہ کر دی ہے، بے روزگاری میں بلا کا اضافہ ہوا ہے اور ملک کو اب تک 5 ارب ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے۔ مسلح افواج کے بجٹ میں اس زبردست اضافہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم پر مسلح افواج کا اس قدر شدید دبائو تھا کہ وزیر اعظم کے لیے اس فیصلہ کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ مسلح افواج کا یہ موقف تھا کہ پچھلی کئی دہائیوں سے دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کی فوج کی اہلیت پر بہت برا اثر پڑا ہے اور اسے دنیا کی پانچویں بڑی فوج کی حیثیت برقرا رکھنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کی امپائر ختم ہو چکی ہے انہیں یہ معلوم کرکے حیرت ہوگی کہ اب بھی برطانیہ کے دنیا کے 42 ملکوں میں 145 فوجی اڈے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اڈے مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کے قریب ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلح افواج کا بورس جانسن پر اس قدر شدید دبائو تھا کہ اگر وہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے کا اعلان نہ کرتے تو اس کا خطرہ تھا کہ فوج حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرتی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کی جمہوریت کو فوج کی مداخلت کا کوئی خطرہ نہیں انہیں شاید علم نہیں کہ 1976 میں لیبر وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے کارروائی کی تھی۔
ہیرلڈ ولسن جو 1964 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد بر سر اقتدار آئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے چار انتخابات جیتے تھے، 1976 میں معیشت کے بحران کا سامنا کر رہے تھے۔ اس صورت حال میں مسلح افواج کو خطرہ تھا کہ کفایت شعاری کی تلوار ان پر گرے گی چنانچہ ان کی حکومت کے خلاف چاروں اطراف سے محاذ کھڑے ہوگئے۔ ان میں سب سے خطرناک محاذ انٹیلی جنس اداروں اور فوج کا تھا ان اداروں نے بڑے پیمانے پر یہ افواہیں پھیلائیں کہ سوشلسٹ وزیر اعظم کے سویت یونین سے گہرے روابط ہیں جس کی وجہ سے وہ سرد جنگ میں مغرب کا بھر پور طریقہ سے ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ اسی زمانہ میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے بھی ولسن حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔بی بی سی کی ایک دستاویزی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ہیرلڈ ولسن کو فوج، انٹیلی جنس سروسز اور شاہی خاندان کے افراد کی طرف سے ان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کا شدید خطرہ تھا۔ اسی دوران فوج نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بغیر کسی وارننگ اور ولسن حکومت سے مشورہ کیے بغیر ہیتھرو ائر پورٹ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس اقدام کو ولسن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مشق سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہیرڈ ولسن نے اچانک وزارت عظمیٰ سے استعفا دے دیا کیونکہ ان کے لیے فوج کا دبائو نا قابل برداشت تھا۔
حال میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے برطانیہ کی سیاست میں جو مداخلت کی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پچھلے عام انتخابات سے پہلے لیبر پاٹی کے لیڈر جیریمی کوربن کے خلاف بڑے پیمانہ پر مہم چلائی گئی کیونکہ ان کی جیت کے قوی امکانات تھے۔ فوج اور انٹیلی جنس ادارے ان کے خلاف تھے کیونکہ وہ جنگ کے خلاف اتحاد کے بانیوں میں تھے جو فوجی اخراجات میں تخفیف کے زبردست حامی ہے۔ جیریمی کوربن کے خلاف مہم میں برطانیہ کے یہودی اور اسرائیل بھی پیش پیش تھے کیونکہ وہ فلسطینیوں کی آزادی کے زبردست حامی ہیں۔ اسرائیل کسی طور بھی یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ برطانیہ میں ایک ایسا وزیر اعظم بر سر اقتدار آئے جو فلسطینیوں کا حامی ہو اور اسرائیل کی فوجی امداد کا مخالف ہو۔ غرض جیریمی کوربن کو فلسطینیوںکی حمایت اور محصور غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کی سزا دی گئی۔ جیریمی کوربن کے خلاف مہم کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ عام انتخابات ہار گئے اور ان کے ساتھ لیبر پارٹی بھی راندۂ درگاہ ہوگئی جو سخت پھوٹ کا شکار ہے۔ اس مہم کے دوران اسرائیل نے اب مغرب میں یہ بات منوا لی ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت اینٹی سیمیٹزم ہے یعنی اگر کوئی اسرائیل کے خلاف ہے تو وہ یہودیوں کے خلاف ہے اور یہ جرم ایسا ہے جس کو کسی صورت میں بخشا نہیں جا سکتا۔ یہ محض خام خیالی ہے کہ برطانیہ میں جمہوریت فوج کی مداخلت کے خطرہ کے بغیر رواں دواں ہے۔