ممکنہ وزیرخارجہ و وزیر دفاع کے اوصاف
امریکی انتخابات کو تین ہفتے گزرجانے کے باوجود کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اب تک جاری ہے۔ زیادہ تر مقامات پر ڈاک سے آنے والے پرچہ انتخاب کا شمار ہورہا ہے، جبکہ جارجیا میں ریاستی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے حکم پر تمام ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کی جارہی ہے۔ تاہم صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جوبائیڈن 306 انتخابی یا الیکٹورل ووٹ لے کر امریکہ کے چھیالیسویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کے حریف صدر ٹرمپ کے کھاتے میں 232ووٹ درج ہیں۔ قصرِ مرمریں کی کنجی کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہیں، چنانچہ اگر دوبارہ گنتی کے بعد جارجیا میں صورتِ حال تبدیل ہو بھی گئی تو نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لیے کہ کلیہ انتخاب میں جارجیا کے 16 ووٹ ہیں۔ حتیٰ کہ جارجیا کے ساتھ پنسلوانیا کے نتائج بدل جانے کی صورت میں بھی جوبائیڈن ہی نومنتخب صدر رہیں گے۔
ریاضی کے مطابق صدر ٹرمپ کی کامیابی کا اب کوئی امکان نہیں اور جمہوری اقدار کی رو سے انھیں باوقار انداز میں اپنی شکست مان لینی چاہیے۔ لیکن موصوف اس پر تیار نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن میڈیا پر انتخاب جیتے ہیں اور بدترین دھاندلی کے ذریعے بائیں بازو کے سوشلسٹوں نے امریکی عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے۔ امریکی سیاسی حلقے ٹویٹر پر صدر ٹرمپ کی شعلہ افشانیوں کو چائے کی پیالی میں طوفان قرار دے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اب تک کسی سنجیدہ قانونی سرگرمی کا آغاز نہیں ہوا۔ پنسلوانیا، مشی گن، ایریزونا اور وسکونسن میں صدرکی 9انتخابی عذرداریاں ابتدائی سماعت کے بعد مسترد کی جاچکی ہیں۔ خبروں کے مطابق موقر وکلا ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں۔ پنسلوانیا میں ٹرمپ انتخابی مہم نے مقدمے کے لیے Wright Morris & Arthurنامی وکلا کی مشہور کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں، لیکن 13 نومبر کو جج کے روبرو ان کے وکلا نے پیروی سے انکار کرتے ہوئے منسوخی کے لیے اپنے وکالت نامے عدالت میں جمع کرا دیے۔ وکلا نے صدر ٹرمپ کو مطلع کردیا ہے کہ کیس میں جان نہیں۔ صدر کے ذاتی وکیل اور نیویارک کے سابق رئیسِ شہر روڈی جولیانی عدالتوں میں صدر ٹرمپ کی پیروی کے لیے راضی و پُرعزم ہیں، لیکن جناب جولیانی کی وجہ شہرت سیاست ہے اور وکالت کے حوالے سے موصوف کوئی بڑا نام نہیں۔
صدر ٹرمپ کے پاس ملک گیر مظاہروں کا راستہ موجود ہے۔ 14نومبر کو دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے زبردست جلوس نکالا جس میں عوامی امنگوں پر ڈاکہ مُردہ باد، امریکہ پر سوشلسٹوں کا قبضہ نامنظور، اور ترقی و خوشحالی کے چار مزید سال کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر سیاہ فاموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جوابی مظاہرہ کیا۔ دھکم پیل اور ہاتھاپائی کے دوران ایک شخص چھری کے وار سے زخمی ہوگیا۔
امریکی نظمِ حکومت میں صدر بہت بااختیار ہے، لیکن امریکی دستور کے مصنفین نے اختیار میں اعتدال کے لیے کلیدی نوعیت کے صدارتی فیصلوں کو مقننہ سے مشورے بلکہ توثیق کا پابند کردیا ہے۔ مثلاً اٹارنی جنرل سمیت وفاقی کابینہ، وفاقی جج، سفرا، خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں، حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے خودمختار اداروں کے سربراہوں اور عسکری قیادت کا تقرر کانگریس کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ اسی طرح سالانہ میزانیہ، دوسرے ملکوں کو اسلحے کی فروخت اور دوسرے اہم معاملات کی کانگریس سے منظوری لازمی ہے۔ کچھ معاملات پر صدارتی ایگزیکٹو آرڈر سے کام چل سکتا ہے، لیکن اگر کانگریس کھلی مخالفت پر اتر آئے تو قانون سازوں کے لیے انتظامی مشنری کو غیر مؤثر کردینا کچھ مشکل نہیں۔ ایک بڑی مثال اومابا دور میں سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کا معاملہ ہے۔ جسٹس انتھونی اسکالیا فروری 2016ء میں انتقال کرگئے۔ صدر اوباما نے ان کی جگہ ایک سینئر جج میرک گارلینڈ کو نامزد کیا۔ اُس وقت امریکی سینیٹ میں 2 اتحادیوں کو ملاکر 46 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ری پبلکن سینیٹروں کی تعداد54 تھی۔ سینیٹ کے قائدِ ایوان مچ میک کانل نے یہ کہہ کر توثیق سے انکار کردیا کہ صدر اوباما کی مدتِ صدارت ختم ہونے میں ایک سال سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور سپریم کورٹ کے جج کا تقرر ساری زندگی کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ اہم فیصلہ نئے صدر کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سال ستمبر میں جب سپریم کورٹ کی جج جسٹس روتھ بدر گنزبرگ کا انتقال ہوا تو یہی موقف ڈیموکریٹس نے اختیار کیا اور قائدِ حزبِ اختلاف نے مچ مک کانل کو یاد دلایا کہ 2016ء میں انتخابات 10 مہینے دور تھے جبکہ اِس بار تو قبل از ووٹنگ بھی شروع ہوچکی ہے، لہٰذا جج کا تقرر انتخابات تک موخر کردیا جائے۔ لیکن اکثریت کے بل پر چند ہفتوں میں جسٹس ایمی کونی بیرٹ کی سپریم کورٹ سے توثیق کرالی گئی۔
اسی طرح کانگریس کے ایوانِ زیریں یا ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) پر ڈیموکریٹک پارٹی کی گرفت صدر ٹرمپ کو کچھ معاملات پر ناکوں چنے چبوا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیرملکی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے، لیکن ایوانِ نمائندگان نے اس کے لیے رقم منظور نہیں کی اور یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔
اس گفتگو کے پس منظر میں عرض ہے کہ 3نومبر کو صدارتی چنائو کے ساتھ ایوانِ نمائندگان کی کُل 435 اور سینیٹ کی 35 نشستوں کے انتخابات ہوئے۔ ان نشستوں میں سے 23 ری پبلکن پارٹی کے سینیٹروں کی میعاد مکمل ہونے پر خالی ہوئی ہیں اور ڈیموکریٹس کو اپنی 12 نشستوں کا دفاع کرنا تھا۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس نے ایریزونا اور کولوریڈو میں ری بپلکن سے نشستیں چھین لیں، اور جواب میں صدر ٹرمپ کی جماعت نے الاباما میں ڈیموکریٹس رکن کی میعاد مکمل ہونے پر خالی ہونے والی سیٹ ہتھیالی۔ اب نئی سینیٹ کی ہیئتِ ترکیبی کچھ اس طرح ہے کہ 100 رکنی ایوان میں 50 ری پبلکن ارکان کے مقابلے میں 48 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہوں گے۔ جارجیا کی دو نشستوں پر کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکا، چنانچہ یہاں جنوری کے پہلے ہفتے میں ضمنی یا Run-offانتخاب ہوگا۔ اگر ڈیموکریٹس یہ دونوں نشستیں جیت گئے پھر تو خیر ہے، ورنہ ایوانِ بالا پر ری پبلکن کی برتری صدر بائیڈن کے لیے سخت مشکل کا سبب بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان نفرت کی حد تک جو کشیدگی نظر آرہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کسی قسم کی مفاہمت یا رواداری کا کوئی امکان نہیں، اور سیاسی مبصرین ہر نکتے پر دمادم مست قلندر کی توقع کررہے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اعترافِ شکست سے انکار اور صدر ٹرمپ کا مہم جویانہ انداز جارجیا میں سینیٹ کے ضمنی انتخاب کے لیے اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ شکست تسلیم کرلینے سے صدر کی کمزوری ظاہر ہوگی۔ وہ اپنے حامیوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جنگ جاری ہے اور کمر کھولنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ صدر کی موجودہ مدت 20 جنوری تک ہے، اور وہ یہ عرصہ امریکی روایت کے مطابق غیر موثر و نمائشی یا lame-duck صدر کی طرح نہیں گزارنا چاہتے۔ وہ جلد ہی جارجیا میں اپنے سینیٹ کے امیدواروں کے لیے بھرپور انتخابی مہم شروع کرنے والے ہیں، اور اگر ری پبلکن پارٹی سینیٹ کی کم ازکم ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ پُروقار انداز میں اقتدار جوبائیڈن کے حوالے کرکے 2024ء میں انتخاب لڑنے کا اعلان کریں گے۔
ایوانِ نمائندگان کے انتخابات میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی بہتر نہیں رہی۔ اس وقت ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکن ارکان کی تعداد 197ہے اور 232 نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں، لیکن 3 نومبر کے انتخاب کے بعد ڈیموکریٹس کی تعداد گھٹ کر 225 ہونے کی توقع ہے، یعنی واضح اکثریت سے صرف 7 زیادہ۔
جسٹس گروپ کے غیراعلانیہ سرپرست سینیٹر برنی سینڈرز ہیں جنھوں نے پارلیمانی سال کے آغاز پر جسٹس ڈیموکریٹس کے منشور کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ برنی سینڈرز کابینہ کی تشکیل، کانگریس کی مجالسِ قائمہ اور پالیسی سازی میں جسٹس ڈیموکریٹس کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس تناظر میں جوبائیڈن انتظامیہ کا آغاز ناہموار یا bumpyنظر آرہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کابینہ اور کلیدی تقرریوں کے لیے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے اور ری پبلکن پارٹی ”ناپسندیدہ نامزدگیوں“ کو مسترد کرکے نئے صدر کے لیے مشکل پیدا کرسکتی ہے۔ اس پس منظر میں اسرائیلی ترغیب کاروں (lobby)کا کام آسان ہوجائے گا، اس لیے کہ اسرائیل کے مخلص حامی دونوں جماعتوں کے کلیدی عہدوں پر موجود ہیں، چنانچہ اب صفِ مخالف سے حمایت حاصل کرنے کے عوض اسرائیل کے ہمدردوں کو انتظامیہ کے اہم عہدوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس ضمن میں وزیرخارجہ، وزیردفاع، اسرائیل اور اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر کے مناصب بہت اہم ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ کے لیے جو نام سامنے آرہے ہیں ان میں مشہور دانشور ڈاکٹر سوزین رائس سرفہرست ہیں۔ 55 سالہ سوزین اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر اور صدر اوباما کی مشیر قومی سلامتی رہ چکی ہیں۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور صدر اوباما کے تعلقات کشیدہ کرنے میں ڈاکٹر صاحبہ کا ہاتھ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ 2014ء میں ایران سے ممکنہ معاہدے پر اپنے اتحادی کو اعتماد میں لینے تل ابیب گئیں تو اسرائیلی حکام کا رویہ ان سے اچھا نہ تھا۔ اس دوران اسرائیلی زعما نے مبینہ طور پر صدر اوباما کے بارے میں کچھ اس انداز میں باتیں کیں جو نسلی حساسیت کے حوالے سے بے باک نوعیت کی تھیں۔ یہ عام خیال ہے کہ امریکہ کے اسرائیل نواز عناصر کے لیے سوزین رائس کا بطور وزیرخارجہ تقرر پسندیدہ نہ ہوگا، لیکن black lives matterتحریک اب مضبوط ہوچکی ہے اور ایک لائق و فائق سیاہ فام دانشور کی کھلی مخالفت ایک مشکل کام ہے۔ متوازن و امن پسند اسرائیلی حلقوں میں ڈاکٹر صاحبہ پسند کی جاتی ہیں اور امریکی یہودی تنظیموں کی فیڈریشن انھیں اعزاز سے بھی نواز چکی ہے۔
ایک اور اہم نام اوباما دور کے نائب وزیرخارجہ ڈاکٹر ولیم برنز ہیں۔ 64 سالہ ڈاکٹر صاحب ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں جن کی پشت پر 38 سال کا تجربہ ہے۔ انھوں نے مارشل اسکالر شپ پر انگلستان کی جامعہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی، اور وہ کئی گرانقدر مقالوں کے خالق ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی موصوف نے ہی فرمائی تھی۔ صدر مرسی کے خلاف سیکولر قوتوں کے محاذ میں اسلام پسند النور پارٹی کی شرکت انھی کی مہین سفارت کاری کا کمال ہے۔ جمہوری حکومت کی معزولی اور قاہرہ کی مشہور مسجد رابعۃ العدویۃ میں اخوانی کارکنوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے بعد سب سے پہلے جناب برنز قاہرہ پہنچے اور جنرل السیسی سے ملاقات میں انھیں مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اُس وقت تک السیسی مصر کے وزیر دفاع تھے۔ اس اہم ملاقات کے بعد جنرل السیسی نے صدر بننے کی کوششیں شروع کیں، اور ایک سال بعد صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔
ایک اور اہم امیدوار ڈاکٹر وینڈی شرمن ہیں۔ 71 سالہ وینڈی شرمن جامعہ ہارورڈ میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وینڈی بھی اوباما انتظامیہ میں نائب وزیرخارجہ رہ چکی ہیں۔ اگر وزیرخارجہ نہ بنیں تو راسخ العقیدہ یہودی محترمہ وینڈی کی اقوام متحدہ میں بطور مستقل سفیر تعیناتی بھی خارج از امکان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سفیر کے لیے انڈیانا کے ایک چھوٹے سے قصبے سائوتھ بینڈ کے سابق رئیس شہر پیٹ بیوٹیجیج کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ پیٹ صاحب نے حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن پارٹی ٹکٹ کے ابتدائی مقابلوں میں پے درپے شکست کے بعد جوبائیڈن کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ پیٹ ہم جنس پرست ہیں اور انھوں نے ایک مرد سے شادی کررکھی ہے۔ سابق صدر اوباما ہم جنس پرستوں پر عائد پابندیوں کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے سعودی عرب اور پاکستان پر زور دیا تھا کہ ہم جنس شادیوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس اہم عہدے پر پیٹ بیوٹیجیج کی تقرری سے دنیا کو یہ پیغام بھی جائے گا کہ بائیڈن انتظامیہ ہم جنسی پر پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔
دو ایک سینیٹرز بھی وزارتِ خارجہ کے امیدوار ہیں۔ اگر سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی تو بہت ممکن ہے کہ نئے امریکی صدر جو خود ایک طویل عرصے تک سینیٹر رہ چکے ہیں اپنے کسی ساتھی سینیٹر کو وزیر خارجہ نامزد کریں۔ تعلقات، رواداری، رکھ رکھائو اور آنکھ کے لحاظ کی بنا پر سینیٹر کی سینیٹ سے توثیق زیادہ آسان ہے۔ اس سلسلے میں بائیڈن کی ریاست ڈیلاوئیر کے سینیٹر کرس کون اور ریاست کنیٹیکٹ کے سینیٹر کرس مرفی کا نام لیا جارہا ہے۔ 57 سالہ کرس کون اسرائیلی لابی میں بہت مقبول ہیں اور وہ امریکہ اسرائیل سیاسی مجلس عمل (AIAPC) کی مجلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ کون صاحب سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے خارجہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
ریاست کنیٹیکٹ سے 47 سالہ ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی بھی جوبائیڈن کے قریبی دوست اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کی مخالفت کی تھی جس پر اسرائیلی لابی اُن سے ناراض ہوئی، لیکن اس کا کفارہ انھوں نے اس طرح ادا کیا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد سینیٹر صاحب نے سعودی و کویتی رہنمائوں کو فون کرکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی درخواست کی۔ یہ دونوں ریاستیں ڈیموکریٹس کا گڑھ ہیں اور وزیر بننے کی صورت خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار کا جیتنا مشکل نہ ہوگا۔
وزیردفاع کے لیے محترمہ مشل فلورنی کا نام لیا جارہا ہے۔ 59 سالہ مشل اوباما انتظامیہ میں نائب وزیر دفاع تھیں۔ ان کے شوہر اسکاٹ گڈ بھی نائب وزیر دفاع رہ چکے ہیں۔ مشل اور ان کے شوہر اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں۔ تاہم مشل صاحبہ کو غربِ اردن میں اسرائیلی بستیوں پر شدید تحٖفظات ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کے جدید ترین میزائیل شکن نظام فولادی گنبد(Iron Dome)کی فراہمی میں مشل صاحبہ نے اہم کردار ادا کیا۔
وزیردفاع کے لیے ایک اور اہم امیدوار لیفٹیننٹ کرنل (ر) ٹیمی ڈک ورتھ ہیں۔ اپنی ننھیال کی جانب سے تھائی نژاد ٹیمی امریکی فوج میں پائلٹ تھیں۔ عراق میں ان کا ہیلی کاپٹر القاعدہ نے گرا لیا۔ شدید زخمی ٹیمی کا پورا دایاں پیر اور بایاں پائوں گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دیا گیا۔ ان کے دونوں ہاتھ بھی متاثر ہیں۔ نومبر 2016ء میں ٹیمی الینوائے سے امریکی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ ایوانِ نمائندگان کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ٹیمی امریکہ کی واحد سینیٹر ہیں جو اس عہدے پر رہتے ہوئے ماں بنیں جب انھوں نے 2018ء میں ایک چاند سی بیٹی کو جنم دیا۔ ٹیمی صاحبہ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کی رکن ہیں۔
وزارت، نظامت و سفارت کا تاج کن لوگوں کے سر سجے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، کہ ان اہم اسامیوں کے لیے نومنتخب صدر نے باضابطہ رابطے ابھی شروع نہیں کیے، لیکن آثار کچھ ایسے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اوباما اقتدار کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔ یعنی ایران جوہری منصوبے کی تجدید، چین کے گھیرائو کے لیے بحر ہند و خلیج بنگال میں ہند نائو سینا(بھارتی بحریہ) کی تکنیکی اعانت میں اضافہ،اسرائیل کی بھرپور مدد کے ساتھ نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کی مخالفت، آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت، دنیا بھر میں ہم جنسی و اسقاطِ حمل پر پابندیوں کی حوصلہ شکنی، ماحولیاتی کثافت سے بچائو کے لیے پیرس کلب کی سفارشات پر عمل درآمد، نیٹو کا استحکام اور یورپی یونین سے قریبی تعلقات شامل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ سرکار کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20 جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے طالبان سے معاملہ کرکے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی ترجیح ہوگی۔ یورپی یونین اور ترکی کے مابین حالیہ کشیدگی میں جوبائیڈن یورپ کی مکمل حمایت کریں گے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انقرہ میں اقتدار کی تبدیلی یا regime change ان کی ترجیح ہے۔