عاق اور زندگی میں مال کی تقسیم

500

اسلام میں وراثت کا نظام موجود ہے۔ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی زمین جائداد اور دیگر مملوکہ چیزیں ا س کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے اور سب کے حصے متعین کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مَرد وں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اگرچہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصے مقرر ہیں‘‘۔ (النساء: 7)
ایسی تدبیریں اختیار کرنا جن سے ورثے میں سے کوئی محروم ہوجائے، درست نہیں ہے۔ ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا۔بعض اولادیں والدین کی نافرمان ہوجاتی ہیں اور غلط روش پر جا پڑتی ہیں۔ چنانچہ والدین ان سے سخت ناراض ہوجاتے ہیں۔ اپنی ناراضگی اور نافرمان اولاد سے اپنی لا تعلقی ظاہر کرنے کے لیے وہ اعلان کر دیتے ہیں اور بسا اوقات یہ اعلان اخبارات میں بھی چھپوا دیتے ہیں کہ فلاں شخص سے، جو ہمارا بیٹا ہے، اب ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، اسے ہم نے عاق کر دیا ہے۔
آدمی کا کسی ناراضگی کی بنا پر اپنی اولاد کو عاق کرنا جائز نہیں ہے۔ شرعی طور پر اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے مرنے کے بعد مالِ وراثت میں دوسری اولادوں کی طرح وہ لڑکا بھی حصہ پائے گا جسے عاق کیا گیا ہو۔اولاد میں سے کسی کو زمین جائیداد سے محروم کر دینے سے دوریاںپیدا ہوتی ہیں۔ اس کی نافرمانی مزید بڑھ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ سماج میں بدنامی ہوتی ہے۔ پھر اس کا بھی قوی امکان رہتاہے کہ نافرمان اولاد آئندہ سدھر جائے اور نیک بن جائے۔ اس لیے کسی اولاد کی نافرمانی کی صورت میں اسے عاق کرکے زمین جائداد سے محروم کرنے کے بجائے اس کے حق میں دعا اور حسن تدبیر سے اصلاح احوال کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
البتہ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں اپنا مال اور دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد کے درمیان عملاً تقسیم کر دے۔ وہ کسی ایک اولاد کو کچھ نہ دے اور دیگر اولاد کو ہبہ کرکے انھیں مالک بنا دے تو قانونی طور پر اس کا یہ عمل نافذ ہوجائے گا، اگرچہ وہ اپنی ایک اولاد کو محروم کرنے کا گناہ گار ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا مالک ہو اس میں اسے آزادانہ تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے یہ حق نہ ہو تو ملکیت کیسی؟
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو ضرورت محسوس ہو تو وہ اپنی زندگی میں اولاد کو دینے میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ہبہ کرنے میں اپنی صاحب زادی ام المومنین سیدہ عائشہؓ کو اپنی دیگر اولاد پر ترجیح دی تھی۔ اسی طرح سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے عاصم کو، جنھیں وہ زیادہ عزیز رکھتے تھے، اپنی دیگر اولاد کے مقابلے میں زیادہ دیا تھا۔
اس بنا پر احناف، مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ اگر آدمی اپنی زمین جائداد یا دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد میں تقسیم کر رہا ہو تو انھیں برابر دینا مستحب ہے، واجب نہیں۔
راجح رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی عام حالات میں روپیہ پیسہ خرچ کرنے میں اولادکے درمیان (بشمول لڑکوں اور لڑکیوںکے) برابری کا معاملہ کرنے کی کوشش کرے، البتہ اگر کوئی خصوصی مدد کا محتاج ہو تو اس کی خصوصی طور پر مدد کردے، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے تین لڑکے ہوں۔ دو صاحبِ حیثیت ہوں اور ایک غریب، یا سب یکساں مالی حیثیت رکھتے ہوں، لیکن ایک کثیر العیال ہو، تو اس کی حسبِ ضرورت اضافی مدد کردے۔ البتہ زمین جائداد کو اگر اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کرتا ہے، (ان کی ضرورت کے پیش نظر) تو وراثت کے حصوں کے مطابق بھی تقسیم کرسکتا ہے۔