اسلام آباد(آن لائن)عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا ہے کہ ہم نے اقلیتوں سے متعلق کمیشن بنایا تو حکومت نے دوسرا کمیشن کیسے بنادیا؟جمعرات کو اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے کی۔چیف جسٹس نے اقلیتوں کے لیے حکومتی کمیشن کی تشکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومت جتنے مرضی کمیشن بنائے مگر عدالتی کمیشن کو نہیں چھیڑ سکتی،نیا کمیشن کس کے ماتحت ہے،حکومت کو بتانا ہو گا کہ کس علاقے میں کون کون سی کمیونٹی رہتی ہے ، یہ بھی بتائیں کہ کس کمیونٹی کو کیا فائدہ ہو رہا ہے، یہ بھی
بتائیں کس گوردوارے کس مندر میں کون لوگ تعینات کیے ہیں،آپ کو زمین تک جانا پڑے گا،ایسے نہیں ہو گا کی صرف کہہ دیا کہ کر دیا کام،اس کمیشن کے کیا ثمرات ہیں بتانا ہوگا، صرف کمرے میں بیٹھ کر لکھ دیا کہ کام ہو گیا ہے ایسے نہیں ہو گا،اگر آپ کہیں کہ چینی سستی کر دی ہے اور مارکیٹ میں 105 روپے ملے تو اس کا کیا فائدہ، ہم نے اپنے فیصلے میں جن چیزوں کی نشاندہی کی ان پر کام ہونا چاہیے،اگر تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی گئی ہے تو اس بارے میں بھی بتائیں،اب تو پورے ملک میں ایک تعلیمی نصاب ہونے جا رہا ہے۔جسٹس فیصل عرب نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آنا چاہیے،ہمیں مفصل رپورٹ دیں جس میں تمام چیزوں کی معلومات ہو، حکومت نے کمیشن تو بنا دیا ہے مگر کمیشن نے کیا کام کیا وہ بھی تو بتائیں،ہم چاہتے ہیں کمیشن مینڈیٹ کے مطابق کام کرے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے ایک موقع پر کہا کہ کمیشن کے قیام پر مجھے بھی ابہام ہے۔عدالت عظمیٰ نے ایک ہفتے میں اقلیتی کمیشن سے متعلق وزارت مذہبی امور سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ہے۔