روہنگیا مسلمانوں کو انصاف کب ملے گا؟

1134

عالمِ اسلام کے سلگتے مسائل میں روہنگیا بحران شاید سب سے الم ناک داستان ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسی قوم کا المیہ ہے، جو مہذب کہلانے والی اس دنیا میں کسی بھی ملکی شناخت سے محروم واحد قوم ہے۔ دنیا بھر میں ان کی آبادی تقریباً 20 لاکھ ہے، جن میں 13 لاکھ سے زائد صرف بنگلادیش میں پناہ گزیں ہیں۔ میانمر سے متصل بنگلادیش کے جنوب مشرقی ضلع کاکسس بازار میں 5 مہاجر کیمپ ہیں، جہاں مٹی کے غیرمستحکم ٹیلوں، نشیبی علاقوں اور ناہموار زمینوں پر لگے خیموں میں 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مہاجر بستی ہے اور شاید انسانوں کے لیے خطرناک ترین بھی۔
اس بحران کی دردناک تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ قدیم تاریخ اس بودھ ملک میں ان بے وطن مسلمانوں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس خطے میں اسلام کی روشنی دوسری صدی ہجری میں پہنچی تھی، کیوں کہ بصرہ، سیراف اور مسقط سے روانہ ہونے والے عرب تاجروں کے جہاز چین کا رخ کرتے، تو سندھ، گجرات، کوکن، مالابار، سرندیپ، معبر اور بنگال سے ہوتے ہوئے اراکان کے ساحل سے گزرتے تھے، جو روہنگیاؤں کاآبائی وطن ہے۔ مسلمان تاجر سب سے پہلے ہارون الرشید کے عہد میں 172ھ بہ مطابق 788ء￿ میں اکیاب کی بندرگاہ پر اترے۔ ان کا جہاز ڈوب گیا تھا اور یہ تیرتے ہوئے اس ساحل پر پہنچے۔ اس دوران انہوں نے مقامی لوگوں کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے ’’الرحمۃ الرحمۃ‘‘ کہا، جسے وہ نہیں سمجھے، لیکن پھر بھی انہوں نے ان تاجروں کی مدد کی۔ اس کے بعد سے وہ مسلمانوں کو ’’الرحمۃ‘‘ کے نام سے یاد رکھنے لگے، اور یہی لفظ آگے چل کر روہانگ اور پھر روہنگیا ہوگیا، جو مقامی سطح پر ہر مسلمان کے لیے بولا جانے لگا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ روہنگ اس علاقے کا قدیم نام تھا۔
سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں اس خطے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی، جو ’’ریاستِ اراکان‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں بودھ برمی خاندان کونگ باؤنگ نے اس پر قبضہ کرکے اس کا خاتمہ کردیا، لیکن 4 دہائیوں بعد ہی برطانوی سامراج نے یہ علاقہ برمی سلطنت سے چھین لیا۔ اس کے بعد اراکان سوا سو سال تک تاجِ برطانیہ کے قبضے میں رہا، یہاں تک کہ برما کو 1948ء میں آزادی مل گئی اور یہ خطہ ایک بار پھر بودھوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ آزادی سے قبل اراکان کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح سے درخواست بھی کی تھی کہ وہ پاکستان سے اس کا الحاق کرائیں۔
آزادی کے چند ماہ بعد ہی اس خطے میں مارشل لا لگ گیا، جو غیرعلانیہ طور پر آج بھی برقرار ہے، جب کہ روہنگیا مسلمانوں نے اسی وقت سے اپنی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد شروع کردی۔ 1950ء سے 1954ء کے دوران ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مسلمان اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہے۔ بالآخر 1982ء میں برمی حکومت نے ایک شہریت قانون نافذ کرکے روہنگیاؤں کو ملکی شناخت سے محروم کردیا۔
بات اس پر ختم ہوجاتی تو شاید موجودہ المیہ جنم نہ لیتا، لیکن فوجی حکومت نے ایک اور ظالمانہ اقدام کرتے ہوئے وقفے وقفے سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کردیا، جس کا مقصد انہیں ان کی آبائی سرزمین سے نقل مکانی پر مجبور کرنا تھا۔ قتلِ عام کی اس داستان کا ہول ناک ترین اور فیصلہ کن مرحلہ اگست 2017ء میں شروع ہوا، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق ایک سال کے دوران 24 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو شہید، 50 ہزار سے زائد کو زخمی اور 18 ہزار خواتین کو بے آبرو، ایک لاکھ 16 ہزار کو زدوکوب اور 36 ہزار کو جلانے کی کوشش کی گئی۔ شہید کیے گئے افراد میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ 15 سے 40 سال کے مردوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، جب کہ علما اور مذہبی شخصیات بھی بودھ فوج کا خاص ہدف رہیں۔ 395 دیہات کو نذرِآتش کرکے بلڈوزروں کی مدد سے زمین ہموار کردی گئی۔ 8 لاکھ سے زائد افراد کو ہمسایہ ملک بنگلادیش ہجرت پر مجبور کردیا گیا، جب کہ ہزاروں نے انڈونیشیا اور ملائیشیا کا رخ کیا۔ ریاست راکھین میں باقی ماندہ روہنگیا آبادیوں کو خوراک، پانی، بجلی اور دیگر سہولیات سے محروم کردیا گیا، جب کہ انٹرنیٹ سروس آج بھی معطل ہے، تاکہ مظلوم روہنگیا باشندے عالمی برادری کو میانمر کی فوج اور آنگ سان سوچی کی نام نہاد جمہوری حکومت کا مکروہ چہرہ نہ دکھا سکیں۔
اس بحران کے آغاز کو اب 3 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ اس دوران مسلم ممالک سمیت عالمی برادری نے اس مسئلے پر ذرہ برابر توجہ نہیں دی۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس کے لیے یہ انتہائی غیر اہم معاملہ ہے، جب کہ چین نے میانمر میں اقتصادی راہ داری کے قیام کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کررکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس حالیہ نسل کشی کے پیچھے بھی یہ منصوبہ کارفرما ہے، کیوں کہ اس کی اہم ترین تیل پائپ لائن کو راکھین کی بندرگاہ سے چینی صوبے یوننان پہنچنا ہے۔ 2011ء میں سعودی آئل کمپنی ارامکو اور چینی کمپنی پیٹروچائنا کے درمیان اس حوالے سے معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اس پائپ لائن کے ذریعے چین کو یومیہ 2 لاکھ بیرل خام تیل فراہم کیا جانا ہے۔ ساتھ ہی چین نے میانمر میں 10 ارب ڈالر کے کیوک پیوک انڈسٹریل زون کے منصوبے پر کام شروع کر رکھا ہے۔ 4200 ایکڑ پر محیط اس صنعتی علاقے کے ذریعے چینی حکومت خلیجی ممالک کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانے کی خواہاں ہے۔ یہ تفصیل روہنگیا بحران پر عرب ممالک کی خاموشی کی وجہ بھی واضح کردیتی ہے۔
بنگلادیش کے جنوب مشرق میں قائم روہنگیا مہاجر کیمپوں کی حالت بھی انتہائی خراب ہے۔ یہ انتہائی گنجان ہونے کے ساتھ خطرناک ترین مقامات پر قائم ہیں۔ ان میں سہولیات کا فقدان ہے۔ بنگلادیشی حکام ان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر بھی نہیں جانے دیتے، جس کے باعث انہیں مہاجر کیمپ کے بجائے
حراستی مرکز کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ بنگلادیشی حکومت ان 10 لاکھ پناہ گزینوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں خلیجِ بنگال کے ایک خطرناک جزیرے بھاسن چار پر منتقل کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ اس جزیرے پر لاکھوں روہنگیا مہاجرین کو بسانے کے لیے رہایش گاہیں تعمیر کی جاچکی ہیں، لیکن اس جزیرے کا اپنا وجود انتہائی ناپائیدار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھاسن چار کو ’’تیرتا جزیرہ‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ مون سون کے موسم میں سمندر میں طغیانی آنے پر یہ اکثر ڈوب جایا کرتا ہے۔ نیز اس کی زمین انتہائی دلدلی ہے، جس پر کسی قسم کی کاشت کاری بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ غرض بنگلادیشی حکومت ان پناہ گزینوں کو نسبتاً کم سخت پہرے سے ایک جیل میں منتقل کررہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس بحران کو ہر سطح پر اجاگر کرکے ان مظلوموں اور بے گھروں کو انصاف اور وطن دلایا جائے۔ (بشکریہ: وقائع)