اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء و رُسل بھیجے اور آسمانی کتب نازل فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا کہ وہ آپس میں اتحاد و یکجہتی قائم رکھیں۔ آج کے دور میں اتحاد امت اور باہمی اتفاق، احترام و محبت معاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اختلاف رائے فطری امر ہے۔ اختلاف رائے کے دائرے میں رہ کر بھی برداشت اور باہمی احترام سے مسائل سمجھے جاسکتے ہیں لیکن یہ رویہ اختیار کرنا کہ میں جو کہہ رہا ہوں جو طریقہ کار بتا رہا ہوں، جو سوچ رہا اور جو لائحہ عمل دے رہا ہوں اس پر سب ہاں کردیں اور اتفاق کر لیں، تب اتحاد قائم ہوگا ایسا ہونا عملاً ممکنات میں سے نہیں۔ باہمی رنجش، فساد اور انتشار ہی کا سبب بنتی ہے۔ اسلامی معاشرہ خصوصاً ملت اسلامیہ میں افراط و تفریط پر مبنی اور اعتدال و توازن سے ہٹ کر اختلاف نے تفریق اور باہمی مخاصمت کو بڑھاوا دیا ہے۔ امت مسلمہ بیرونی دشمنوں کے حملوں کی زد میں تو ہے ہی لیکن اندرونی اختلافات نے حالات مزید ابتر کر دیے ہیں۔ اقبال ؒ نے ملت اسلامیہ کو پیغام دیا ہے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: اے اہل ایمان اللہ سے
ڈرو، جس طرح ڈرنے کا حق ہے اور جب تمہیں موت آئے تو حالت اسلام میں آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آپس میں مل جل کر اتحاد و اتفاق سے رہنے کا ابدی طریقہ بتایا۔ فرمایا: سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو آپس میں تفرقوں کا شکار نہ ہو جانا، اور اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد رکھو جب تم میں دشمنی تھی اس نے تمہارے دلوں میں محبت و الفت ڈال دی تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔ تم دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا اور اللہ یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتاہے کہ تم ہدایت پائو ( آل عمران: ۱۰۴)
مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ جہاں بھی انتشار و افتراق کی آگ بھڑکے تو وہ اسے ٹھنڈا کرے۔ جس معاشرے میں خطیب حضرات، مقررین، مبلغین، واعظین، ذاکرین جذبات اور نفرتوں کی آگ بھڑکانے والے ہوں، وہاں تو ایسی جماعت اور ایسے گروہ کے وجود کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اگر چہ تلخیوں، غیر ذمہ دارانہ رویوں، شعائر اسلام کی توہین اور دل آزاریوں کے ماحول میں حق و سچ اور توازن و اعتدال کی بات کرنا بذات خود کئی خطرات کا باعث بنادیا گیا ہے لیکن اللہ کے حکم، خاتم الانبیاء ؐ کے اسوہ کے مطابق انتشار، تفرقہ کی آگ کو ٹھنڈا کرنا اہم ترین فریضہ ہے۔ منفی رویے ذلت و رسوائی کا باعث ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ’’ان جیسے نہ ہو جانا جو آپس میں پھٹ گئے ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے روشن نشانیاں آچکی تھیں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (آل عمران: ۱۰۵)۔ امت اس قدر اختلافات میں الجھ گئی ہے یا الجھاد دی جاچکی ہے کہ امت کو اپنے بنیادی مسائل کے فہم و شعور اور ادراک سے دور کردیا گیا ہے۔ امت محمدؐیہ سے اخلاقی، تعلیمی و تہذیبی، اتحاد و یگانگت، امانت و دیانت، دعوت و تبلیغ، حسن اخلاق جیسی قیمتی متاع چھینی جارہی ہے۔ کبھی نہ حل ہونے والے فروعی اختلافات کو پھر سے پہاڑ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) نے تو بس سب جذبات کے بند توڑ دیے ہیں۔ سب نفرتوں کے سیلاب میں بہہ رہے ہیں۔ افراط و تفریط ہے لیکن ہر طبقہ یہ پکار رہا ہے کہ دوسرا ہی خراب و غلط ہے۔ ہر طرف اظہار جذبات میں اس قدر غیر ذمے داری اور دین اسلام کی تعلیمات سے انحراف ہورہا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ایسے غیر ذمے دار افراد کی ان کے اپنے گروہ، حکومت و انتظامیہ سرپرستی کرتی ہے۔ قانون حرکت میں نہیں آتا اور حالات اور باہمی اعتماد میں مسلسل زہر گھلتا جارہا ہے۔
اختلاف اور گروہی تعصب فطری امر ہے لیکن رسول اللہؐ نے ایسے ہی ماحول اور جذبات میں رہنمائی فرمائی۔ انصار و مہاجرین، صحابہ کرام ؓ کے دو مقدس گروہ تھے، اللہ نے جن کے ایمان اور وفاداری کی شہادت اور جنت کی بشارت دی ہے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر پانی کے معاملہ پر جب بات لڑائی تک پہنچ گئی تو ایک انصاری صحابیؓ نے انصار کو مدد کے لیے پکارا، یہ دیکھ کر مہاجر صحابیؓ نے بھی مہاجروں کو مدد کے لیے پکارا اے مہاجرو مدد کرو۔ رحمۃ اللعالمینؐ کو جوں ہی اس کی خبر ہوئی آپؐ فوراً جھگڑے کے مقام پر تشریف لے گئے اور فرمایا ’دور جاہلیت کی یہ کیسی پکار دے رہے ہو‘۔ صورتحال سے آگاہ کیا تو آپؐ نے فرمایا ایسی باتیں چھوڑ دو یہ بہت گندی اور بدبو دار باتیں ہیں (بخاری)۔ غور کیجیے مہاجرین اور انصار جیسی عظیم و مقدس نسبتیں جب کسی غلط فہمی کے نتیجے میں گروہی عصبیت کا روپ دھار لیتی ہیں تو رسول اللہؐ نے اس عصبیت کو جاہلیت قرار دیا۔ اس طرح سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد عثمانی و علوی نسبتوں نے سر اٹھایا تو سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے امت کو یہی پیغام دیا کہ ’میں ملت علی یا ملت عثمانی پر نہیں بلکہ محمد رسول اللہؐ کی ملت پر ہوں‘۔ رسول اللہؐ نے امت کو یہی پیغام دیا کہ
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ ے جارہا ہوں، جب تک ان دونوں سے جڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہو گے، یعنی کتاب اللہ اور رسول اللہؐ کی سنت‘‘۔ آپؐ نے یہ فرمایا ’میرے طریقے کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ کے طریقہ کو لازم پکڑو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑو‘۔ آپؐ نے فرمایا ’جہنم سے بچنے والا راہ حق کا راہرو ہوگا جو وہ عقیدہ و عمل اختیار کرے جو میرا اور میرے صحابہؓ کا ہے‘۔ ( موطا امام مالک، احمد ترمذی)
ہر دور میں اختلافات اور افتراق کا طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے لگتا ہے کہ یہ طوفان تھمے گا نہیں لیکن جہاں جلتی پر تیل ڈالنے والے ہوتے ہیں وہیں پر اس آگ کو سرد کرنے والے بھی اپنا دینی، ملی اور انسانی فریضہ ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ سیدنا سعدؓ بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا میں نے اپنے ربّ سے تین دعائیں کی ہیں۔
۱۔ میں نے دعا کی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرنا تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی۔ ۲۔ میں نے دعا کی کہ میری ساری امت قحط میں مبتلا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی۔ ۳۔ میں نے دعا کی کہ میری امت آپس میں اختلافات کا شکار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول نہ فرمایا (مسلم)
اسی لیے امت میں اختلاف اور افتراق تو لازمی امر ہے لیکن اس سے دور رہنے کی بھی بار بار تاکید و تلقین اور رہنمائی کی گئی ہے۔ علٰیحدہ علٰیحدہ گروہوں میں بٹ جانے سے بچائو کی تدبیر بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں مسلکی اختلافات پہلے بھی تھے، اکابرعلما نے نہایت حکمت سے اختلافات کو احترام اور برداشت کے دائروں میں رکھا۔ ہر دور کے علما نے امت کے سدھار کا مسلسل جہادی عمل جاری رکھا۔ بریلوی مکتب فکر کے جید عالم دین، انتہائی متوازن اور اتحاد امت کے داعی محقق، مترجم تفسیر کبیر مولانا مفتی محمد خان قادری مرحوم و مغفور نے اختلافات دور کرنے اور اتحاد و محبت کے لیے تجاویز دیں جو درج ذیل ہیں:۔
۱۔ اسلام کا مطالعہ بطور نظام کیا جائے نہ کہ بطور فرقہ تاکہ ذہن میں وسعت آئے۔
۲۔ کسی کو بھی بدنیت قرار نہ دیا جائے دلیل کے ساتھ بات کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو اور جو جیئے وہ دلیل سے جیئے (الانفال: ۴۲)
۳۔ ثبوت کے بغیر کسی کو بکائو مال نہ کہا جائے۔
۴۔ جب تک کسی مسئلہ پر تحقیق نہ ہو، اس مسئلہ پر گفتگو نہ کی جائے۔ قرآن کریم میں ہے ’’اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے معاملے میں جھگڑتے ہیں، بے جانے بوجھے (الحج: ۳)
۵۔ زندگی میں بہت سے مسائل تجربات اور مشاہدات سے حل ہوتے ہیں جس کے لیے عقل کی پختگی ضروری ہے۔
اس سے بڑھ کر اس پر دلیل کیا ہوگی کہ ہر نبی بلکہ سید الانبیا سیدنا محمدؐ نے چالیس سال کے بعد نبوت کا اعلان کیا، لہٰذا فتویٰ بازی کے لیے بھی کم از کم 90سال کی عمر تو ہو۔
۶۔ مستند علما ہی کو تقریر، وعظ، مجالس میں ذکر اور تصنیف و تحریر کی اجازت ہونی چاہیے۔ سیدنا علیؓ نے وہ وعظ روک دیا تھا جو ناسخ و منسوخ نہیں جانتا تھا۔ یاد رہے کہ دین پیشہ نہیں دین ایمان ہے۔
۷۔ یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام غربت کا نام نہیں ہے۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ قریب کہ فقر کافر بنا دے۔ انبیاء کرامؑ کا فقر اختیاری ہوتا ہے نہ کی اضطراری۔
۸۔ اسلام کا عمومی رویہ رحمت و شفقت ہے۔ بدرو حنین ہنگامی احوال ہیں۔ عمومی رویوں کو اپنانے کی کوشش کریں تاکہ معاشرہ میں امن و سلامتی پیدا ہو۔
۹۔ مساجد کے میناروں پر خرچ کے بجائے محراب میں کھڑے ہونے والے کو مینار مان کر خرچ کیا جائے۔
۱۰۔ حکومت ایسے افراد جو فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کے ماہرہیں، ایسے ناموں پر پابندی عائد کردے۔
امت میں اتحاد سب کی خواہش ہے۔ اتحاد کون نہیں چاہتا۔ جو اتحاد نہیں چاہتا، اتحاد امت کے خلاف ہے اس کے منافق ہونے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن امت میں اتحاد کے بجائے افتراق بڑھتا جارہا ہے۔
شیعہ سنی کی تقسیم تو ہے ہی اب یہ تقسیم سنیوں میں حنفی، مالکی، اہل حدیث کی تقسیم پھر حنفیوں میں دیو بندی، بریلوی کی تقسیم، اہل تشیع بھی ایک مرکز پر قائم رہنے کے بجائے تقسیم در تقسیم ہیں۔ اللہ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، نبی کریمؐ سے پہلے بھی نزول قرآن کے بعد بھی۔ فرقہ فرقہ نہیں اتحاد و وحدت ہی عزت و وقار کی راہ ہے۔ قبائل اور برادریاں تو محض پہچان کے لیے بنائی گئی تھیں۔ انسانی عزت اور افتخار کا معیار تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔