لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ لبرل او ر سیکولر لابی اسلام کے عطا کردہ خاندانی نظام کو توڑنا چاہتی ہے ۔اسلام ایسے معاشرے کی تشکیل کا حکم دیتا ہے جس میں حیا اور پاکیزگی ہو۔حجاب ایک سوچ ،فکر اور نظریے کی علامت ہے ۔ 6ارب ڈالرکے لیے فیٹف کے قوانین پر آنکھیں بند کرکے ٹھپا لگانے والے قوم کے مجرم ہیں۔ یہاں سے اربوں ڈالرلوٹ کر باہر منتقل
کرنے والے مافیاز کو بے نقاب کرنے اوران کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اب ان لٹیروں سے حساب کتاب کرنے کی ضرورت ہے جو ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں ۔ 70سال سے اقتدار پر مسلط ظالم جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، جرنیلوں ،نواب زادوں اور خانزادوں کو قوم نے دیکھا ہے انہوں نے ہمارا حال اور مستقبل دونوں تباہ کیے ۔حکمران پاکستان کے نظریے اور جغرافیے کی حفاظت نہیں کرسکے ۔ملک میں انصاف بکتا ہے اور پیسے والا انصاف کو خریدتاہے ۔پارلیمنٹ کے اندر قوم کے لیے نہیںآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لیے قانون سازی ہوتی ہے ۔ طبقاتی نظام تعلیم نے قومی یکجہتی کو پارا پارا کردیا ہے ۔کراچی سے چترال تک پورا ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے ،سیکڑوں لوگ جان سے گئے مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔حکمران سمجھتے ہیں کہ غریب مررہے ہیں ،ان کا کیا ہے ،یہ تو مرتے رہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میںعالمی یوم حجاب کے موقع پر خواتین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس سے سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین دردانہ صدیقی، ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثمینہ سعید ،عطیہ نثار،تسنیم معظم، ربیعہ طارق صدر وسطی پنجاب،رضیہ مدنی،ڈاکٹر زبیدہ جبین،صدر ضلع لاہور، ڈاکٹر آصفہ ،عائشہ بشیر،آمنہ سلیم،ڈاکٹر نائلہ احسان،فرحت اسلم ،پروفیسر ربیعہ شبیر ،ملیحہ سید ، ڈاکٹر امتہ اللہ زریں، عابدہ بخاری ، طلعت جبیں رفاہ یونیورسٹی،ڈاکٹر آمنہ بشیر ڈاکٹر آف فارمیسی رفاہ یونیورسٹی،صائمہ شیرا فضل رفاہ یونیورسٹی ، روباعروج نیو ٹی وی، دیبا مرزا پاکستان اخبار، صائمہ کیمیکل انجینئر، اقصیٰ وکیل روزینہ چودھری پروفیسر اردو ادب و مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نمائندہ خواتین نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد بھی موجود تھے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک پر مسلط جاگیردار،وڈیرے اور سرمایہ دارعام آدمی کا استحصال کررہے ہیں۔اسلام بے زاراشرافیہ آئین کی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ آئین پاکستان قرآن و سنت کی بالا دستی کا تقاضا کرتا ہے ۔ ملک میں حیا کے کلچر کو فروغ دینا ایک آئینی تقاضا ہے مگر عورتوں کے حقوق کے نام پر عورت کا استحصال ہورہا ہے ۔مغرب کی پروردہ این جی اوز خواتین کے حقوق کے نام پرمعاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دے رہی ہیں۔ حجاب کا حکم کسی انسان کا نہیں،خالق کائنات کا ہے۔حجاب ایک سوچ ، فکر اور نظریے کی علامت ہے ۔باپردہ خواتین خود کو محفوظ سمجھتی ہیںاسی لیے مغرب اور یورپ کی عورتیں بھی تیزی سے حجاب کی طرف مائل ہورہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کو ناکام بنانے میںمسلم خواتین نے بڑا مؤثر کردار ادا کیاہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ اسلام نے ماں، بہن،بیوی اور بیٹی کے رشتوں میں عورت کو جو عزت و وقار دیا ہے وہ کسی دوسرے مذہب نے نہیں دیا ۔اسلام نے عورت کو نہ صرف احترام دیا بلکہ اسے وراثت کا حق دیکر معاشرے میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ۔انہوں نے کہا کہ عورت پر روا رکھا جانے والا ظلم و جبر اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ۔جماعت اسلامی عورتوں کے حقوق کی سب سے بڑی علمبردار جماعت ہے جس کی مرکزی شوریٰ میں بھی 10 منتخب خواتین ارکان ہیں اور قومی معاملات میں ان سے رائے لی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں لائبریریوں ،لیبارٹریوں اور تعلیم و صحت کے شعبوں سمیت قومی اداروں میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں مگر ملک میں تعلیمی اداروں سے باہرڈھائی کروڑ بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے ۔معصوم بچوں اور بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے ۔معصوم کلیوں کو دن دہاڑے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے مگرمعصوم بچیوں کے قاتلوں کوپکڑا جاتا ہے نہ انہیں نشان عبرت بنایاجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک کو اسلامی و خوشحال پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہی ہے تاکہ خواتین کو ان کا وہ مقام دیا جاسکے جو اسلام نے ان کو عطا کیا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دردانہ صدیقی نے کہا کہ حجاب اور پردے نے مسلمان عورت کو جو وقار دیا ہے ، اس نے مسلم معاشرے کو ایک حسن بخشا ہے جبکہ مغرب اور یورپ کے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں ۔ ایک پرامن اور باوقار معاشرے کی تشکیل کے لیے عورت کے مقام و مرتبے کا تحفظ انتہائی ناگزیر ہے ۔ بے حجاب معاشروں میں عورت غیر محفوظ اور جرائم بڑھ رہے ہیں جبکہ باحجاب معاشروں میں نہ صرف عورت کو تحفظ حاصل ہے ، بلکہ معاشرے میں جرائم کی شرح بھی مسلسل کم ہو رہی ہے ۔