ملک کی مجموعی معاشی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ پوری قوم کے لیے یہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں۔ ماضی کی ناکامیوں کے بعد عمران خان کی سربراہی میں حکومت سے عوام خصوصاً نوجوانوں کو بڑی توقعات تھیں۔ معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے بلند بانگ دعوے کیے گئے لیکن تحریک انصاف حکومت پہلے سو دنوں کے انقلابی اعلان اور اب دو سال بیت رہے ہیں، لیکن اپنے تیرہ نکاتی معاشی ایجنڈے کے کسی نکتے پر بھی عملی کارکردگی صفر ہے۔ ملکی تاریخ کا یہ بڑا المناک پہلو ہے کہ پہلی بار قومی معیشت کی نمو منفی ہوگئی ہے۔ مجموعی پیداوار میں اضافہ ہونے کے بجائے مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ حکومت اس کی وجوہات میں سے بڑی وجہ کورونا وائرس کی وبا بتاتی ہے لیکن یہ وبا پوری دنیا میں آئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے کسی ملک کی شرح نمو منفی نہیں ہوئی۔ حقیقت میں اول روز سے پی ٹی آئی حکومت کا معاشی ایجنڈا اور ٹیم نااہل ثابت ہوئی ہے۔ نااہل حکومت اور خراب معاشی پالیسی کے نقصانات معاشرے کے غریب اور سفید پوش طبقہ پر مسلط کردیے گئے ہیں۔ روپے کی قدر میں 43 فی صد کمی ہو جانے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح 17 فی صد تک چلی گئی۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 25 فی صد اضافہ بیک جنبش قلم کردیا گیا جس کا فائدہ تیل سپلائی کرنے والی بڑی کمپنیوں کو ہوا جنہوں نے عوام کی جیبوں پر 300 ارب روپے کا ڈاکا ڈالا۔ شنید اور حقائق یہی ہیں کہ لوٹ مار میں ملوث کمپنیوں کے مالکان کا کسی نہ کسی صورت حکمران جماعت سے تعلق ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ جاری ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے احساس پروگرام کے تحت عوامی ریلیف پیکیج پر عملدرآمد کیا لیکن یہ اس قدر بے ہنگم تھاکہ اس کے سماج پر کوئی اثرات نہیں ہوئے۔ اساتذہ، امام و خادمین مساجد اور مدارس کے مدرسین کو نظر انداز کردیا گیا۔ عوام کی قوت خرید ختم ہوگئی یا مسلسل زوال کا شکار ہے لیکن حکومت کوئی فوری اقدامات نہیں کر رہی۔ اقتصادی ریلیف پیکیج کے قرضوں پر سود کی لعنت کا نفاذ کاروباری طبقہ کے ساتھ ظلم اور دینی لحاظ سے بھی ناجائز ہے۔ غیر سودی قرضے برکت کا ذریعہ ہوں گے یہ امر ہولناک ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے بجائے لاکھوں بیروزگار انسانوں کا مسلسل معاشی قتل جاری ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے بجائے ایک کروڑ لوگ مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ حکومت نے تعمیراتی صنعت کو
فروغ دینے کے بلند بانگ دعوئے کیے لیکن خوف اور تحفظات کی وجہ سے اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری کے آثار نہیں، عملاً بڑی مشکلات ہیں۔ حکومتی نظام پر چھائے بے یقینی کے بادل قومی معیشت کے لیے خوفناک اور زہر قاتل ہیں المیہ یہ ہے کہ حکومت میں کسی سطح پر احساس بھی نہیں اگر کہیں ہے بھی تو اس کے مطابق قومی سطح پر لائحہ عمل نہیں ہے۔ عمران خان صاحب نے کشکول توڑنے اور عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کے بجائے خود کشی کو ترجیح دینے کے خوش کن اعلانات کیے لیکن اس وقت پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر سے بڑھ کر 115 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ قومی معیشت گروی اور قومی وقار، خود مختاری، فیصلہ سازی کے اختیار پر سمجھوتا در سمجھوتا ہورہا ہے۔ ملک کے اندر پالیسی سازی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے باہر سے ڈکٹیشن لینا کلچر بن گیا ہے یہی نتیجہ ہے کہ صنعت، تجارت، زراعت پر تباہی آگئی ہے اور عوام بدحالی کا شکار ہوگئے ہیں۔ نج کاری کی پالیسی کے لیے فوجی آمریتوں، نواز، زرداری دور کی طرح عملدرآمد کی بے تابی جاری ہے۔ پرائیوٹائزیشن پالیسی پر قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔ پارلیمنٹ پر بھی اعتماد نہیں، صرف آئی ایم ایف کے احکامات پر قومی ادارے اونے پونے داموں فروخت کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ حکومت کی اپنی کوئی رائے نہیں، تذبذب کی وجہ سے بے یقینی ہے۔ کساد بازاری بڑھتی جارہی ہے جہاں سے دبائو آتا ہے حکومت اسی جانب لڑھک جاتی ہے۔ یہ طریقہ کار پوری قوم میں اجتماعی بغاوت کا رجحان پیدا کر رہا ہے ابھی تو تاجر ہارن بجائو حکومت جگائو کے راستہ پر ہیں حالات نہ سنبھلے تو ردعمل اور شدت اختیار کرتا جائے گا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکومتی وزراء حکومتی ماہرین غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ حکومت کو زمینی حقائق کا اندازہ ہی نہیں حکومتی بیانیہ اور اسٹیٹ بینک رپورٹ کے اعداد و شمار میں بڑا فرق ہے۔ دعویٰ تو تھا کہ احتساب ہوگا سب کا ہوگا، لوٹی ہوئی قومی دولت واپس حاصل کی جائے گی۔ احتساب بے تدبیری سے انتقام کا عنوان بنا دیا ہے۔ کرپٹ مافیا کو تحفظ دے دیا گیا ہے۔ آٹا چینی اسٹاک ایکسچینج، کرنسی، سیمنٹ، تیل مافیا محفوظ ہیں عوام لٹ رہے ہیں، کرپشن اور عوام کو لوٹنے کا ہولناک میکنزم بن گیا ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے چوروں کو تحفظ ہی نہیں یہ سہولت بھی عطا کردی گئی ہے کہ اپنا پیسہ بیرون ملک رکھیں کوئی نہیں پوچھے گا۔
زر مبادلہ کے ذخائر قومی اقتصادی نظام کو متوازن بناتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت تو اسٹیٹ بینک کے پاس 10.24 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر تھے، قومی خزانہ پر مزید 20 ارب ڈالر کا بوجھ بھی بڑھ گیا لیکن زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ اسٹاک ایکسچینج بار بار کریش ہوا اور لوگوں کے اربوں کھربوں ڈوب گئے۔ کیپٹلائزیشن میں 2300 ارب روپے کی کمی ہوئی، ڈالر کی قدر بڑھی اور روپے کی قدر میں 43 فی صد کمی کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کی کسی پالیسی میں کوئی تال میل نہیں بے جوڑ اور مزید نقصانات کے اقدام ہورہے ہیں ان حالات میں فوری اقدامات کے ذریعے بحران سے نجات ہوسکتی ہے۔
حکومت کو معاشرے کے غریب طبقات، مزدوروں، کسانوں، تاجروں، بے روزگاروں کی مدد کے لیے ریلیف پیکیج کو دوگنا کرنا ہوگا اور ایسے پیکیج پر نقائص و کرپشن سے پاک عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم، این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی اور چھیڑ چھاڑ کے بجائے صوبوں کے تحفظات دور کیے جائیں۔ وفاق اور صوبے آئین کے دارئرے میں اپنی پرفارمنس درست کریں نیز سابقہ قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کے لیے پہلے سے اعلان شدہ اقتصادی پیکجز پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔ قومی معیشت پر مسلط بحران ختم کرنے کے لیے خود انحصاری کی حکمت عملی اختیار کی جائے اور بیرونی قرضوں پر پابندی عائد کی جائے۔ مقامی صنعتوں کے فروغ کے لیے قومی اور علاقائی ایوان ہائے صنعت و تجارت اور کاروبار ی طبقوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ اسپیشل اکنامک زونز قائم کیے جائیں۔ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم تو شدید متاثر ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بجٹ میں تعلیم اور صحت کو پھر نظر انداز کردیا ہے۔ کورونا میں تعلیمی اداروں کو ریلیف دینے، ملک بھر کی جامعات کے مسائل حل کرنے کے بجائے مزید مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔ پنجاب میں پیف سے وابستہ تعلیمی ادارے بڑی مشکلات کا شکار ہیں۔ پنجاب حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی بے حسی ختم کی جائے۔ پاکستان میں آئی ٹی سروسز کے بڑے امکانات ہیں۔ بھارت کے 130 ارب ڈالر کے مقابلہ میں پاکستان صرف ڈیڑھ ارب ڈالر برآمدات میں کما رہا ہے۔ آئی ٹی کے فروغ اور نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے اس صنعت سے وابستہ کمپنیوں کو سہولتیں دی جائیں۔ زراعت قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کی ترقی پوری توجہ چاہتی ہے۔ سرمایہ دار اور زراعت پیشہ طبقوں میں دوریاں، مفادات کی بنیاد پر کچھائو ختم کیا جائے تاکہ ترقی کی جانب گامزن ہوا جائے۔ چھوٹے کسانوں کی حالت کو سنبھالا دینے کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق مائیکرو فنانس کی سہولتیں پیدا کی جائیں۔ پاکستان کے لیے چین، ایران، افغانستان سے تجارتی، اقتصادی راوبط بڑھانے کے لیے اب بڑے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ جرأت اور حکمت و دانش کی بنیاد پر اقدامات کیے جائیں۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر منصوبوں کے اجراء کو ترجیح دی جائے۔ ٹیکسوں کا حصول ناگزیر ہے لیکن ظالمانہ نظام ٹیکس، چوری، کرپشن اور معیشت، اداروں کی تباہی کا باعث بن گیا ہے۔ ٹیکس استطاعت کے مطابق ہو، براہ راست ٹیکس کلچر لایا جائے، بالواسطہ ٹیکس عوام کی سکت ختم کررہا ہے۔ اربوں روپے کی جائدادوں کے مالکان پر دولت ٹیکس لگایا جائے اس کار خیر کا آغاز بنی گالا اسٹیٹ پر ٹیکس کا آغاز وزیراعظم اپنے آپ سے کریں۔ عالمی معاشی نظام تلپٹ ہوگئے ہیں۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہورہا ہے۔ دولت سمٹ کر چند امیر ترین لوگوں کے پاس چلی جارہی ہے۔ دنیا اب نئے معاشی نظام کی متلاشی ہے جبکہ سودی نظام ناکام اور زکوٰۃ وعشر کے نظام کے امکانات اور اچھی برکات بھی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ادھار و سود کا معاشی نظام بدلا جائے اور پاکستان میں اسلامی معاشی نظام لایا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے۔ سود کا خاتمہ کر کے ملک میں غریب، متوسط طبقات کے لیے اسلامی فلاحی اور خوشحالی کا نظام لایا جائے۔ جماعت اسلامی اول دن سے یہی موقف پیش کر رہی ہے۔ وقت اور حالات نے اس موقف کو درست ثابت کردیا ہے۔ ملک اب فرسودہ اور ناکام تجربات اور استیصالی نظام معیشت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔