کراچی (نمائندہ جسارت)سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہر کوئی کے الیکٹرک پر انگلی اٹھاتا ہے، اس کا لائنس معطل ہونا چاہیے۔عدالت عالیہ نے کے الیکٹرک انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کنڈے ہٹانے اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکم دے دیا۔جسٹس خادم حسین ایم شیخ اور جسٹس ارشد حسین خان پر مشتمل 2رکنی بینچ کے روبرو شہر میں کنڈ ے اور لوڈ شیڈنگ سے مستثنا علاقوں میں بجلی بندش کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔جسٹس خادم حسین ایم شیخ نے ریمارکس دیے کراچی کے لوگ کے الیکٹرک کی وجہ سے بڑی تکلیف میں ہیں، کنڈے سے بجلی کے حصول اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری پریشان ہیں۔کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف دیا کہ شہر سے کافی علاقوں سے کنڈے ہٹادیے ہیں ،بجلی کی تاریں بھی تبدیل کردی ہیں۔جسٹس خادم حسین ایم شیخ نے کہا کہ شہر میں تو اب بھی کنڈے لگے ہیں اورلوڈ شیڈنگ بھی جاری ہے۔ کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف دیا کہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ہماری ٹیمیں نہیں جاسکتیں، بعض علاقوں میں کنڈے ہٹانے کے بعد لوگ دوبارہ لگا لیتے ہیں۔جسٹس خادم حسین ایم شیخ نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ کنڈے ہٹادیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کے الیکٹرک نے ناکارہ لوگ بھرتی کیے ہیں،بڑی بڑی تاروں پر عام آدمی کنڈا کیسے لگا سکتا ہے؟ اگر کوئی بجلی چوری کرتا ہے تو ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ ہمارے سامنے باتیں مت بنائیں، بجلی چوری کے کتنے مقدمات بنائے گئے ہیں؟ ہمیں سب معلوم ہیں کے الیکٹرک والے صرف پیسے بنا رہے ہیں اور ناکارہ ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں۔ اگر لوگ کنڈے دوبارہ بھی لگا لیتے ہیں اس کا مطلب ہے آپ کی انتظامیہ ناکارہ ہے۔عدالت نے تاروں سے کنڈے ہٹانے اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے سے متعلق کے الیکٹرک انتظامیہ سے 25 اگست کو پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے شہر میں گندگی ، غلاظت اور کچرے کے ڈھیر کے خلاف دائر درخواست پرڈ پٹی سیکرٹری محکمہ بلدیات سمیت دیگر مدعاعلہیان کو29جولائی تک نوٹس جاری کردیے۔ فاضل عدالت نے متعلقہ حکام سے شہر کے مختلف علاقوں سے کچرا اٹھا کر ٹھکانے لگا نے کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی ۔جمعہ کو جسٹس خادم حسین ایم شیخ کی سر براہی میں 2رکنی بنچ نے شہر میں گندگی ، غلاظت اور کچرے کے ڈھیر کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ فاضل عدالت نے درخواست گزار کو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو فریق بنانے کا بھی حکم دیا ہے۔سماعت کے موقع پر جسٹس خادم حسین ایم شیخ کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کچرا گندگی اور غلاظت کی پیش کردہ تصویریں دیکھ کر رنجیدہ ہوگیا ہوں ،کراچی کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے، کیا کسی بڑے شہر کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے؟،جب سیاسی جماعتیں پاور میں نہیں ہوتیں تو کہتی ہیں اختیارات دو کام کریں گے اور جب اختیارات مل جاتے ہیں تو اپنی پاور اور ذمے داری بھول جاتے ہیں۔دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کراچی سے کچرا اٹھانا ڈی ایم سیز اور کے ایم سیز کی ذمے داری ہے جس پر جسٹس خادم حسین کا سرکاری وکیل سے کہاکہ بلدیہ عظمیٰ والے تو آئے روز کہتے رہتے ہیں ہمیں فنڈ ملتے ہیں نہ کام کرنے دیا جاتا ہے،جب آپ بلدیہ عظمیٰ کو فنڈ نہیں دیتے تو خود کیوں کام نہیں کرتے؟کراچی میں گندگی اور کچرا ایک دن وبائی صورتحال اختیار کر جائے گا، کیا کسی شہر کی ایسی حالت ہوتی ہے۔ اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جب کچرا چھتوں کو چھوتا ہے تو تب ایک دو ٹرک اٹھا لیے جاتے ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس ارشد حسین خان کا کہنا تھاکہ عدالت کی جانب سے نوٹسز جاری ہونے کے باوجود کسی نے پیش ہو کر وضاحت دینے کی زحمت نہیں کی۔دوران سماعت عدالتی حکم پر ڈپٹی سیکرٹری بلدیات عدالت میں پیش ہوئے ۔ اس موقع پر عدالت نے ڈپٹی سیکرٹری بلدیات سے استفسار کیا کہ کراچی کا کچراصاف کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ جس پر ڈپٹی سیکرٹری بلدیات کا کہنا تھا کہ کراچی کا کچرا صاف کرناکے ایم سی اور ڈی ایم سیز کی ذمے داری ہے، اگر کے ایم سی اور ڈی ایم سی کام نہیں کرے گا تو صوبائی حکومت قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔ عدالت نے ڈپٹی سیکرٹری بلدیات پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں اتنا کچرا موجود ہے تو آپ نے ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل صفدر علی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچرا صاف کرنا سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کا کام بھی ہے مگر اس کو درخواست میں فریق نہیں بنایا گیا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ڈ پٹی سیکرٹری بلدیات سمیت دیگر مدعاعلہیان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 29جولائی تک ملتوی کردی ۔