مغرب ترکی پرتنقید کے بجائے فلسطین میں مساجد کو شراب خانوں میں تبدیل کرنیکا نوٹس لے‘ سراج الحق

474
اسلام آباد: امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے جے آئی یوتھ کے صدر اویس اسلم مرزا کی قیادت میں وفد ملاقات کررہاہے

لاہور( نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے آیا صوفیہ کی بحالی پر ترک صدر طیب اردگان کو مبارک باد دی ہے اور کہا ہے کہ آیا صوفیہ کی مسجد کی بحالی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے اندر خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی ہے ۔امریکا اور مغرب کی مسجد کی بحالی پرتنقید بلا جوازہے۔آیا صوفیہ پہلے بھی مسجد تھی جسے غیر قانونی طریقے سے میوزیم میں بدل دیا گیا تھا جس سے مسلمانوں کے دل زخمی تھے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی قوانین ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنی عبادت گاہوںکی حفاظت کاحق دیتے ہیں۔امریکا اور مغرب کو فلسطین میں اسرائیلی مظالم ،مسلمانوں کے قبلہ اول پر ناجائز قبضہ اور مساجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے ان میں شراب خانے اور جوئے کے اڈے کھولنے کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے ۔ اسلام تمام مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے ،عالمی برادری کو بھی اسلامی شعائر کا احترام کرنا چاہیے ۔ دینی مدارس کے طلبہ اسلام اور پاکستان کے اصل محافظ اور امت کی آئندہ آنے والی قیادت ہیں۔یہ ادارے عالمی استعماری قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیںاور بین الاقوامی سطح پر قرآن و سنت کے علوم کے پھیلائو کو روکنے کیلیے ان اداروں کے خلاف بلاجواز زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔دہشت گردی کے نام پر دینی مدارس کو بدنام کرنے کی سازش اس لیے ناکام ہوئی کہ آج تک کسی دینی ادارے سے کوئی ایک دہشت گردنہیں پکڑا گیالیکن اس کے باوجود منفی پروپیگنڈا جاری ہے ۔افسوس یہ ہے کہ حکومتوں نے مدارس اور دینی علوم کے طلبہکے حوالے سے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔کورونا وائرس سے دیگر اداروں کی طرح دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہبھی سخت متاثرہوئے لیکن متاثرین کیلیے اعلان کردہ امدادی پیکیج میں قرآن و سنت کی روشنی پھیلانے والے ان لاکھوں طلبا اور اساتذہ کی ایک روپے کی بھی امداد نہیں کی گئی اور حکومت نے ہمیشہ ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے سب سے بڑے دارالعلوم جامعہ فریدیہ کے امتحانی سینٹر کے دورہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔امتحانی سینٹر میں 15سو سے زائد طلبہامتحان دے رہے ہیں۔مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہنے امیر جماعت اسلامی کے دورہ کے موقع پر ان کا شاندار استقبال کیا اور پاکستان میں نظام مصطفی ﷺ کے نفاذکیلیے ان کی جدوجہد اور امت مسلمہ میںان کے قائدانہ کردار کو سراہا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے اوردنیا میں پاکستان کے ایک نظریاتی اور اسلامی ملک ہونے کی پہچان ہیں۔ دینی مدارس میں اس وقت 35لاکھ طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں سے اکثریت ان حفاظ کرام کی ہے جو اللہ کی آخری کتاب قرآن پاک کو اپنے سینوں میں محفوظ کررہے ہیں مگر عالمی استعماری قوتوں کے غلام حکمرانوں کا ہمیشہ ان مدارس کے ساتھ سلوک معاندانہ رہا ہے ،حالانکہ یہ مدارس حکومت کی طرف سے وقتافوقتا دی جانے والی ہدایات پرعمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔دینی مدارس میں اب قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم اور آئی ٹی کی بھی تعلیم دی جارہی ہے اور طلبہایک اچھے عالم دین کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی مہارت حاصل کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں دینی مدارس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ یہ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت اور عوام و مخیر حضرات کی طرف سے ملنے والے عطیات پر اپنا گزارہ کرتے ہیں مگر حکومت پھر بھی ان پر آئے روز کوئی نہ کوئی قدغن لگاتی رہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ان مدارس کی محافظ جماعت ہے ہم مدارس کے خلاف بین الاقوامی ایجنڈے کو کسی صورت پورا نہیں ہونے دیں گے ۔میں حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لے اور دینی مدارس کے خلاف اپنے رویے پر نظر ثانی کرے ۔ دریں اثناء امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق سے جے آئی یوتھ پنجاب شمالی کے ذمے داران کے ایک وفد نے صدر اویس اسلم مرزا کی قیادت میںپارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں ملاقات کی ۔وفد نے کرونا وبا کے دوران متاثرین کیلیے امدادی سرگرمیوں اورآنے والے بلدیاتی الیکشن اور یونٹ سازی کے حوالے سے اب تک طے ہونے والے امور سے آگاہ کیا۔سینیٹر سراج الحق نے جے آئی یوتھ کی کرونا وبا کے دوران امدادی سرگرمیوں کی تحسین کرتے ہوئے یوتھ کے ذمے داران کو شاباش دی اور امید ظاہر کی کہ جے آئی یوتھ کے نوجوان اسی عزم اور جذبے کے ساتھ عوام کی خدمت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہیں گے ۔انہوں نے جے آئی یوتھ کے ذمے داران کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے ادارے تباہی کا شکار اور عوام مہنگائی ،بے روز گاری اور تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔حکومتی کرائسزمسلسل بڑھ رہا ہے ۔معاشی صورتحال ابتر ہوچکی ہے ۔ملک میں بے چینی اور بدامنی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ان حالات میں ضروری ہے کہ نوجوان مایوسی اور بے یقینی کے ان اندھیروں سے قوم کو نکالنے کیلیے آگے بڑھیں ،نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملائیں انہیں تحریک میں شامل کریں اورآنے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیکر دیانتدار قیادت کو آگے لائیں تاکہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی و فلاحی مملکت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے ۔