زیادہ ہوشیاری اسٹیل ملز انتظامیہ کے گلے پڑ سکتی ہے ، چیف جسٹس

239

 

اسلام آباد(مانیٹر نگ ڈیسک)عدالت عظمیٰ نے پاکستان اسٹیل ملزکے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کے حکومتی منصوبے پر سوالات اٹھا دیے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمدنے پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ملازمین کو نہیں نکالا جا سکتا، اسٹیل ملز سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے۔عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے اسٹیل ملز سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیے کہ زیادہ ہوشیاری اسٹیل ملز انتظامیہ کے گلے پڑ جائے گی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ نے اسٹیل ملزکے تمام ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمین کو اس طرح نکالا تو 5ہزار مقدمات بن جائیں گے۔ وکیل اسٹیل ملز ملازمین نے عدالت کو بتایا کہ ملازمین کی برطرفی کے لیے 40 ارب درکارہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہ ہو اسٹیل ملز انتظامیہ کو برطرف کیے گئے ملازم ہی دوبارہ رکھنے پڑیں ، اسٹیل ملز انتظامیہ زیادہ ہوشیاری دکھائے گی تو یہ انہی کے گلے پڑے گی۔چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے کہا کہ حکومت جو کرنے جا رہی ہے اس سے تباہی پھیلے گی ، آپ اس معاملے کو انتہائی برے طریقے سے دیکھ رہے ہیں،حکومت اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر کیوں کھڑی نہیں ہو پا رہی،عدالت آپ کو سہارا نہیں دے سکتی،آپ کو اندازہ ہی نہیں وہ کیا کر رہی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا منصوبہ یہ ہے کہ 95 فیصد ملازمین کو نکالا جائے گا اور کنٹریکٹ پر نئے ملازمین بھرتی ہوں گے،اس وقت اسٹیل ملز ملازمین کے ہائیکورٹس میں 320 اور عدالت عظمیٰ میں 29 مقدمات زیر سماعت ہیں۔عدالت عظمیٰ نے پاکستان اسٹیل ملز سے نئی رپورٹ طلب کرتے ہوئے فریق مقدمہ کے وکیل کامران مرتضیٰ کی علالت کے باعث سماعت 4 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی ۔علاوہ ازیںعدالت عظمیٰ نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کے پی کے ملازمین کے کیس کی سماعت کے دوران 294 اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی برطرفی کیخلاف اپیلیں خارج کر دیں ہیں۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمدکی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ورکر ویلفیئر بورڈ افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے پی کے میں کرپشن اور اقرباپروری عروج پر ہے،ورکرز ویلفیئر بورڈ گھوسٹ ملازمین سے بھرا پڑا ہے،تمام بھرتیاں سیاسی ہیں یا پھر افسران نے اپنے رشتے دار بھرتی کیے،لگتا ہے سارا کے پی کے صرف سرکاری ملازمت ہی کرتا ہے،ورکرز ویلفیئر بورڈ افسران کو زرا شرم نہیں آتی،ورکرز ویلفیئر بورڈ کرپٹ ترین ادارہ ہے،کوئی ملازم بھی قانون کے مطابق بھرتی نہیں کیا گیا ، کیوں نہ ورکرز ویلفیئر بورڈ تحلیل کرکے تمام افسران کو فارغ کردیں، کیوں نہ تمام افسران اور ملازمین کو فارغ کرتے ہوئے نیا بورڈ تشکیل دیا جائے گا اور تمام بھرتیاں بھی دوبارہ ہوںگی،تحریری فیصلے میں یہ سب کچھ لکھیں گے،بڑی بڑی تنخواہیں لینے والوں نے ادارے کی کوئی بہتری نہیں کی،ورکرز ویلفیئر بورڈ میں مزدوروں کا پیسہ ہے اس لیے حکومت دلچسپی نہیں لیتی،کسی سرکاری ادارے میں وزرا کے سفارشی برداشت نہیں کریںگے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ورکر ویلفیئر بورڈ کے 18 ٹیکنیکل اسکولوں میں صرف 628 طالب علم ہیں،ان اداروں میں 474 ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں،ان 474 ملازمین کی ماہانہ تنخواہ 2 کروڑ ادا کی جارہی ہے،فی بچے پر تقریباً 32ہزار ماہانہ کے اخراجات بنتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ بھرتیوں میں وزرا کا کیا کام ہے ،مزدوروں کا پیسہ سیاسی رشوت کے طور پر پھینکا جاتا ہے۔ سماعت غیر معینہ مدت تک کیلیے ملتوی کر دی گئی ۔